اسلامی نظام حکومت کے غیر واقعی چہرے کو بیان کرنا
کیا اسلامی نظام حکومت کی تقویت کی خاطر اس کے غیرواقعی چہرے کو دشمن کے سامنے بیان کرنا جائز ہے؟
حتی الامکان ہر کام کے لئے سچّائی سے کام لیا جائے کہ جو شریعت سے بھی نزدیک ہے اور عقل سے بھی۔
حتی الامکان ہر کام کے لئے سچّائی سے کام لیا جائے کہ جو شریعت سے بھی نزدیک ہے اور عقل سے بھی۔
ضروری ہے کہ صداقت کے ساتھ خبروں کو بیان کیا جائے اور ان کی مکاریوں سے غافل نہ رہیں، اور ان کے جھوٹ کو برملا کریں اور مطمئن رہیں کہ جھوٹ کا انجام برملا ہونا اور بے اعتباری ہے ۔
اگر بڑھا چڑھاکر پیش کرنے سے مراد بے جا مبالغہ اور بلاوجہ بزرگ نمائی ہو تو جائز نہیں ہے لیکن اگر اس سے منظور ناشناختہ با ایمان اور گرانقدر شخصیت کو پہچنوانا ہو تو نہ یہ کہ یہ کام اچھا ہی ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔
مخبر کے ثقہ ہونے کو اس کے ساتھ معاشرت یا آگاہ اور مطلع وثقہ افراد کی گواہی سے سمجھا جاسکتا ہے ۔
اس طریقے کے کام مومنوں اور اسلام کے گرویدہ لوگوں کی شایان شان نہیں ہیں ۔
یہ کام اگر بدآموزی کا سبب نہ بنے تو بہت اچھا کام ہے اور عمدتاً یہ مشکل مخالفین کے نظریات کو مناسب طریقے سے بیان کرنے سے حل ہوجاتی ہے، اس طرح کہ ان کے نظریات کو مضر اور مخرّب طریقے سے اور جھوٹ اور تہمت کے ہمراہ بیان نہ کئے جائیں، البتہ توجّہ رکھنا چاہیے کہ مسائل مختلف ہیں؛ کچھ مسائل کو عوام الناس میں بیان کرسکتے ہیں اور کچھ مسائل ایسے ہوتے کہ جن کو فقط حوزہٴ علمیہ، یونیورسٹی اور علمی محافل کی حدود میں رہنا چاہیے؛ کیونکہ اُن مسائل میں تخصصی آگاہی کی ضرورت ہے، یقینا ان دونوں مسائل کا ایک دوسرے سے مشتبہ ہونا معاشرے میں بہت مشکلات کا باعث ہوگا۔
موثق خبر کو چند طریقوں سے پہچان کرسکتے ہیں:۱۔ راوی کے موثق ہونے کے راستے سے یعنی خبر کا نقل کرنے والا بااعتماد شخص ہو۔۲۔ عمومی مقبولیت کے ذریعہ، یعنی اگر راوی مجہول ہو، لیکن لوگوں کے درمیان وہ خبر اتنی مشہور ہو کہ اطمینان کا سبب ہوجائے ۔۳۔ خبر کے مضمون کے ذریعہ، یعنی خبر کا مضمون، اس قدر مستدل اور قرائن کے ساتھ ہو کہ جو اپنی صحت پر خود گواہ ہو۔
ایک خبر نگار اُن لوگوں کو اطلاع رسانی کے ذریعہ جو لوگ اس کام کے مقابلے کے لئے آمادہ ہیں ایسے ہی معاشرے کی سطح پر اس کو نشر کرنے کے ذریعہ سے خصوصاً معاشرے میں اس چیز کی اطلاع پہنچانے کے ذریعہ کہ اس کام کے کتنے بڑے نقصانات ہیں اور معاشرے پر ان کا کتنا بُرا اثر ہوتا ہے، باواسطہ مدد کرسکتا ہے ۔
قران مجید کے فصاحت وبلاغت کے طریقوں کو حاصل کرنے کے لئے اور خبرنگاری میں ان سے استفادہ کرنے کے لئے ”پیام قرآن“ کی آٹھویں جلد کی قرآن مجید، فصاحت وبلاغت کی نظر سے ”معجزہ“ ہونے کی بحث میں صفحہ۸۷ کے بعد دیکھے سکتے ہیں، یا ہماری کتاب ”قرآن وآخرین وپیامبر“ میں مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
فقہ اسلامی میں ان دونوں موضوعوں کے لئے کوئی خاص اصطلاح نہیں ہے ۔ اگر فقہاء کے کلمات میں استعمال ہوتو اس کے وہ ہی عرفی اور عام فہم معنی ہیں ۔ خبر کسی واقعیت کو بیان کرتی ہے، لیکن تبلیغ کسی کام کی تشویق یا ترغیب کے مقصد سے انجام دی جاتی ہے ۔
جب تک کوئی خبر حد تواتر کو نہ پہنچے اور اطمینان بخش قرائن کے ساتھ بھی نہ ہو تو اس کو محتمل خبر کی صورت میں ذکر کرے نہ قطع کی صورت میں ۔
اگر عفت کے اصول کی رعایت کی جائے تو خواتین سے استفادہ کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔