لڑکیوں کا فلموں میں کام کرنے کا حکم
ہیروئنیں جو فلموں میں الگ الگ ہیرو کے ساتھ ان کی بیویوں کا رول کرتی ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
اگر برائی کے فروغ کا سبب نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر برائی کے فروغ کا سبب نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر اس میں حرام پروگرام دکھانے جاتے ہوں تو اس کی مدد کرنا جائز نہیں ہے ۔
مجسمہ بنانے میں اشکال ہے لیکن گڑیا یا کھلونے وغیرہ خواہ کوئی رول ادا کرے یا نہ کرے، بہرحال اس میں اشکال نہیں ہے
جرم کو ثابت کرنے لئے ممکن ہے کہ حاکم شرع کو اُن مسائل میں جہاں اس کو ماہرین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی نظروں پر تکیہ کرنا پڑے، اور موضوع کے ثابت ہونے کے بعد حکم صادر کرے ۔
تسامح اور مدارا کے مختلف معنی ہیں، اگر اس سے مراد اسلام کے دشمنوں کے ساتھ میل جول کرنا اور دشمن کو دوست کے لئے نقصان ہنچانے کا موقع فراہم کرنا ہے تو ایسی چیز جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر صحیح وسالم گروہ یا دیگر مذاہب کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی گذارنا ہو، اس طرح کہ مسلمانوں اور آئین اسلام کو ضرر پہنچانے کا سبب نہ بنے تو جائز ہے ۔
بد آموز اور ضرر پہنچانے والی فلمیں جیسے سیکسی اور ڈراؤنی فلمیں وغیرہ حرام ہیں، لیکن درس دینے والی فلمیں یا کم از کم بغیر مفسدہ کے سرگرم کرنے والی فلمیں نہ یہ کہ ان کے دیکھنے میںاشکال ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ مفید اور موٴثر اور اسلامی مقاصد کی ترقی کا سبب بھی ہوتی ہیں اور کسی مرد کا بغیر محرمیت کے کسی عورت کے شوہر کے کردار کو ادا کرنا اس صورت میں کہ جب اس میں شریعت کے خلاف کوئی چیز نہ ہو تو اس میں ذاتاً کوئی اشکال نہیں ہے، اور مخالف جنس کی آواز کی تقلید کرنے کا بھی یہی حکم ہے ۔
اگر تنقید راہ حل کے ساتھ ہو تو یقیناً بہتر ہے؛لیکن اگر تقیدکرنے والا راہ حل نہیں بتا سکتا تو تب بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے باب سے اپنا وظیفہ انجام دے ۔
جواب: الف :”اسلام کے مبانی“ سے مراد دین کے ضروری مسائل ہیں چاہے وہ اعتقادی مسائل ہوں جیسے توحید، معاد، قیامت عصمت انبیاء وآئمہ علیہم السلام اور اسی کے مانند دوسری چیزیں، چاہے فروع دین اور اسلام کے قوانین اور احکام ہوں، اور چاہے اخلاقی اور اجتماعی مسائل ہوں ۔اور ”اخلال“ سے مراد ہر وہ کام ہے جو مذکورہ مبانی کی تضعیف یا ان میں شک وتردید ایجاد کرنے کا سبب ہو، چاہے وہ مقالہ لکھنے کی وجہ سے یا داستان، یا تصویر بنانے کے ذریعہ ہو یا کارٹون یا ان کے علاوہ کسی اور چیز سے ۔جواب:ب : اگر سوال پیدا کرنے سے مراد اس کا جواب حاصل کرنا ہے تو اخلال نہیں ہے، لیکن اگر اس سے مراد افکار عمومی میں شبھہ ایجاد کرنا ہو تو اخلال شمار ہوگا اور جدید چیز نکالنے سے مراد، اگر فقط ایک علمی احتمال کو بیان کرنا ہو تاکہ اس پر تحقیق اور مطالعہ کیا جائے تو اخلال نہیں ہے؛ لیکن اگر قطعی طور سے اس پر تکیہ کیا جائے یا اس کو اس طرح نشر کیا جائے کہ جو اسلام کے ضروریات کے مخالف ہو تو مبانی میں اخلال شمار ہوگا۔جواب: ج : بے شک ان دونوں میں فرق ہے، عمومی نشریات میں نشر کرنا ممکن ہے کہ مبانی اسلام میں اخلال کی صورت اختیار کرلے، لیکن خصوصی نشریات میں یہ صورت پیدا نہیں ہوتی۔
اس کا معیار شرعی موازین کی رعایت، اور حلال کو حرام سے جدا کرنا ہے ۔
اگر مسلمانوں کے ضرر اور نقصان کا سبب نہ ہو تو ممانعت نہیں ہے ۔
دینی طنز وہ ہے کہ جس میں سب سے پہلے تو صحیح مقصد مضمر ہو، اور دوسرے یہ کہ خلاف شرع باتوں سے خالی ہو۔