دشمنانِ اسلام کوبرے اور اہانت آمیز القاب دینا
کیا دشمنان دین اور دشمنان انقلاب کو بُرے اور اہانت آمیز القاب سے یاد کرنا جائز ہے؟
اس طریقے کے کام مومنوں اور اسلام کے گرویدہ لوگوں کی شایان شان نہیں ہیں ۔
اس طریقے کے کام مومنوں اور اسلام کے گرویدہ لوگوں کی شایان شان نہیں ہیں ۔
ضروری ہے کہ صداقت کے ساتھ خبروں کو بیان کیا جائے اور ان کی مکاریوں سے غافل نہ رہیں، اور ان کے جھوٹ کو برملا کریں اور مطمئن رہیں کہ جھوٹ کا انجام برملا ہونا اور بے اعتباری ہے ۔
اس کا م کو رشوت کا نام نہیں دے سکتے ہیں؛ بلکہ یہ وہ حقّ الزحمہ ہے کہ جو مثبت، مفید اور مشروع کام کے عوض دیا جارہا ہے اور لینے والے اور دینے والے پر کوئی اشکال نہیں ہے ۔
بے حجاب اور بد حجاب عورتوں کے چہروں سے استفادہ کرنا اسلامی جمہوریہ کی شان نہیں ہے ۔
تہمت، جھوٹ وغیرہ کا سہارا لینا ایک مسلمان اور شریعت پر پائبند پرپائبند خبرنگار کے شایانِ شان نہیں ہے ۔
جب تک غیروں کے نظریوں کا بیان کرنا اور ان کی تنقید کرنا مسلمانوں کی فکری اور تہذیبی ترقی کا سبب ہوتا ہو، تو اس طریقہ کار کو اپنانا چاہیے اور کسی جگہ پر تخریبی صورت اختیار کرلے تو اس سے پرہیز ضروری ہے ۔
حتی الامکان ہر کام کے لئے سچّائی سے کام لیا جائے کہ جو شریعت سے بھی نزدیک ہے اور عقل سے بھی۔
اگر بڑھا چڑھاکر پیش کرنے سے مراد بے جا مبالغہ اور بلاوجہ بزرگ نمائی ہو تو جائز نہیں ہے لیکن اگر اس سے منظور ناشناختہ با ایمان اور گرانقدر شخصیت کو پہچنوانا ہو تو نہ یہ کہ یہ کام اچھا ہی ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔
خبرنگار ذمّہ دار نہیں ہے اور اس کو اپنی حیثیت کی حفاظت کے لئے حقیقت کو فاش کرنا چاہیے ۔
اگر یہ کام تساہلی کی وجہ سے واقع ہوا ہو اور کسی کو حق کے ضائع ہونے کا سبب ہوا ہو تو اس صورت میں خبرنگار ذمّہ دار ہے، لیکن اگر ایسی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو کہ جو عموماً غیر معصومین سے سرزد ہوجاتی ہے تو خبر نگار کی کوئی ذمہ داری نہیںہے لیکن اگر اس کا یہ کام دوسروں کے ضرر اور نقصان کا سبب ہوا ہو تو خبرنگار کے اوپر اس کی تلافی ضروری ہے، کیونکہ جانی اور مالی نقصان میں، عمدی اور خطائی دونوں صورتیں ذمہ داری کا سبب ہوتی ہیں، فرق فقط اتنا ہے کہ عمدی صورت میں سزا بھی ہے لیکن خطائی صورت میں سزا نہیں ہے ۔
جرم کو ثابت کرنے لئے ممکن ہے کہ حاکم شرع کو اُن مسائل میں جہاں اس کو ماہرین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی نظروں پر تکیہ کرنا پڑے، اور موضوع کے ثابت ہونے کے بعد حکم صادر کرے ۔
جواب:الف: البتہ ”مقدسات اسلامی“ کی عبارت، ہر کلام میں موجود قرائن کے لحاظ سے ایک خاص تشریح اور وضاحت کی محتاج ہوتی ہے؛ لیکن معمولاً جب یہ عبارت استعمال ہوتی ہے تو ان امور کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو تمام دینداروں کی نظر میں محترم ہوتے ہیں؛ جیسے ”خدا“ ، ”آئمہ ھدیٰ علیہم السلام“، ”قرآن شریف“، ”مساجد“، ”خانہ کعبہ“، ”اسلام کے مسلّم احکام“، اور انھیں کی جیسی دوسری چیزیں، ممکن ہے کچھ جگہوں پر مقدسات اسلامی کے معنی اس سے بھی زیادہ وسیع ہوں ۔جواب:ب: موضوع کی تشخیص دینے والے افراد معاشرے کے دیندار لوگ اور مسائل اسلامی سے اشنا افراد ہیں اور ممکن ہے کہ پیچیدہ موارد میں دانشوروں اور دینی علماء کی نظر کی بھی ضرورت ہو۔جواب:ج: اگر تنقید سے مراد قانون اور قانون بنانے والے پر اعتراض ہو تو بے شک یہ توہین کے مصادیق میں سے ہے، اور اگر اس سے مراد ان افراد پر اشکال اور اعتراض ہو جنھوں نے ایسے احکام کو استنباط کیا ہو یا دوسرے لفظوں میں کسی کا استنباط زیر سوال جائے نہ کہ حکم الٰہی، تو مقدسات اسلامی کی اہانت کے مصادیق میں سے نہیں ہوگا۔