امام راتب کی عدم موجودگی میں ایک دینی طالب علم کا جماعت کرانا
کیاایک دینی طالب علم اس وقت تک جب تک کہ امام جماعت نہ آئے نماز جماعت پڑھا سکتا ہے؟
جی ہاں، وہ امامت کراسکتا ہے تاکہ نماز جماعت کی تعطیل نہ ہونے پائے ۔
جی ہاں، وہ امامت کراسکتا ہے تاکہ نماز جماعت کی تعطیل نہ ہونے پائے ۔
قالین بننے کے بعد جب اس کو بیچنے کے لئے تیار کرلیں اوراس پر ایک سال گزر جائے اور اس کا پیسہ استعمال نہ ہو تو خمس دینا ہوگا ۔
مستعد اور ایسے لوگوں کے لیے جن کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے علم دین کے حصول کا واجب عینی ہونا بعید نہیں ہے۔
ختم سورہ انعام کا یہ جو طریقہ رایج ہے اس بارے میں کوئی مستند حدیث نظر سے نہیں گزری، اگر چہ بعض کتب مین اس کی اشارہ کیا گیا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں ہے کہ اس مبارک سورہ کی تلاوت اور اس پر عمل بہت سء مشکلات کے حل کا سبب بن سکتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ سورہ کی تلاوت کے وقت ان میں کسی چیز کا اضافہ نہ کیا جائے۔ ہاں جب تلاوت ختم ہو جائے تو دعائیں اور مرثیہ پڑھے جائیں۔
شہریہ سے مربوط مسائل کے لیے مراجع کرام کے دفتروں میں رجوع کریں اور ان کے حکم کے مطابق اس پر عمل کیا جائے، شہریہ کے مصرف کے لیے دفتر سے اجازت کا ہونا ضروری ہے۔
اگر مولویت کی صنف کی توہین شمار نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
نہیں ، ملاک و معیار یقین ہے ۔
موجودہ حالات میں دینی علوم کا حاصل کرنا مقدم ہے۔ البتہ ایک گروہ کا یونیورسٹی مین پڑھنا بھی ضروری ہے تا کہ اسلامی مقاشرہ کے تمام شعبہ جات اچھی طرح سے چل سکیں۔
امتحان میں نقل کرنا جایز نہیں ہے، اب چاہے وہ جگہ بیت المال سے چلتی ہو یا کسی اور مال سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ نقل کرنے کا نقصان خود نقل کرنے والے کو ہوتا ہے۔ اگر نمبر کا امتحان میں کوئی اثر نہ ہو تو اس مین نقل کرنا حرام نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ میں نے لکھا ہے تو چھوٹ کا مرتکم ہوا ہے جو کہ حرام ہے۔
شہریہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جو حوزہ میں درس پڑھتے ہیں۔ البتہ اگر شہریہ دینے والے بعض خاص موارد میں اجازت دیتے ہیں تو ان موارد میں لینا جایز ہوگا۔
اگر نماز اجارہ ایسے شخص کی ہو کہ جس کی نماز قطعی طور سے قضا ہوئی ہے تو ایسے امام کی اقتداء میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
جواب: فرض کریں کہ پہلے والد کا انتقال ہوا ہے اور ان کے ترکہ میں سے ایک حصہ ان کے اس مرحوم بیٹے کو مل گیا ہے جو اس کے بچوں کو مل جائے گا، پھر فرض کریں کہ بیٹے کا پہلے انتقال ہوا ہے اور اس کے اُس مال سے جو پہلے سے موجود تھا، اس کے والد کو میراث ملے گی اور باقی میراث اس کے بچوں کو پہونچے گی، مختصر یہ کہ میراث کے قانون کے مطابق، دونوں کو ایک دوسرے سے میراث ملے گی اور ان کا حصہ ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا ۔
اگر مکان کو امام جماعت کی سکونت کے لئے بنایا گیا تھا تو اس کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے؛ مگر یہ کہ امام جماعت اس کو استعمال نہ کرے اور معطّل پڑا رہے؛ اس صورت میں اس کو کرایہ پر دیا جاسکتا ہے اور اس کے کرایہ کو مسجد کی ضروریات میں صرف کیا جاسکتا ہے اور اگر امام جماعت مجبور ہے کہ دوسرا گھر کرایہ پر لے تو اس کے کرایہ کا پیسہ امام جماعت کو دیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر اس کا خود ذاتی مکان ہو تو کرایہ کے پیسہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔
ان امور مین والدین کی رضایت ضروری نہیں ہے، ان کی اطاعت ان موارد میں واجب ہے جہاں ان کی عدم اطاعت ان کے ازار و ازیت کا سبب ہو۔ ایسے مسائل جو انسان کی زندگی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسے نکاح و طلاق، ان میں بھی ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح سے علم دین کے حصول کے لیے، جو عصر حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے، والدین کی رضایت شرط نہیں ہے، اسی طرح سے علماء کے لباس پہننے کا بھی یہی حکم ہے مگر بہتر یہ ہے کہ تمام کاموں میں ان مرضی کو شامل کیا جائے۔