اہانت کے معنی
اہانت کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ گناہ کبیرہ میں سے ہے؟
اہانت یعنی مسلمانوں کی توہین کرنا اور ان کو حقیر سمجھنا ہے اور یہ گناہان کبیرہ میں سے ہے ۔
اہانت یعنی مسلمانوں کی توہین کرنا اور ان کو حقیر سمجھنا ہے اور یہ گناہان کبیرہ میں سے ہے ۔
بہتر ہے کہ قرآن مجید کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں اور اس طرح کے کام سے پرہیز کریں۔
مسلمان علماء و محققین شیعہ ہوں یا سنی سب اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے۔ سب کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ موجودہ قرآن میں ہے سب وہی ہے جو آنحضرت (ص) پر نازل ہوا تھا۔ اس میں نہ ایک کلمہ کا اضافہ ہوا نہ کمی۔ البتہ بعض شیعہ سنی علماء جن کی تعداد بہت کم ہے قرآن مجید مین تحریف کے قائل ہیں۔ مشہور علماء اس قلیل تعداد پر کوئی توجہ اور اہمیت نہیں دیتے۔ پم نے اس بات کا ذکر تفسیر نمونہ اور انوار الاصول میں کیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ان کا مطالعہ کریں۔
اگر بے احترامی کا قصد نہیں ہے تو حرام نہیں ہے البتہ ضرورت نہ ہو تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
تمام مسلمان مرنے والے کی بخشش اور ایصال ثواب کے لیے نیک اعمال بجا لانا جایز ہے۔ اگر چہ وہ گناہ گار ہی کیوں نہ ہو۔
جواب:۔ ایسی ماں خود نفقہ کا حق نہیں رکھتی لیکن ناجائز بچے کا نفقہ اس کے باپ پر واجب ہے .
جواب : چونکہ آپ نے ہماری طرف رجوع کیا ہے لہٰذا نئے مسائل کو بھی ہم سے پوچھیں۔
بعض قرائن سے استفادہ ہوتا ہے کہ امام زمانہ(علیه السلام) کے پاس ایسے ایسے اسلحے اور وسائل ہوں گے کہ جو ان دیگر تمام اسلحوں پر بھاری ہوں گے اور ان کو ناکارہ بنادیں گے ۔
ظاہراً جو اس حدیث یا اس جیسی دوسری حدیثوں میں آیا ہے وہ مال الخراج پر ناظر ہے؛ کیونکہ اراضی خراجیہ تمام مسلمانوں سے مربوط ہیں، لہٰذا خراج کے مال کو مساوی طور سے تقسیم ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بعید نہیں ہے کہ آپ کا یہ ارشاد اُن امتیازات کی طرف اشارہ ہو جو عثمان کے زمانے میں طاقتور لوگوں اور قبائل کے سرداروں کو دیئے جاتے تھے۔ لیکن اگرکثرت عیال، زیادہ کام یا زیادہ فعالیّت کی وجہ تنخواہوں میں فرق ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
غیر مسلم کے لیے کام کرنا حرام نہیں ہے۔ البتہ کام حلال اور آبرو مندانہ اور مباح ہونا چاہیے اور مسلمانوں کی ذلت کا سبب نہ ہو۔
ہاں وہ ایسا کر سکتے ہیں، قرآن مجید نے حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے صریحا اس بات کو بیان کیا ہے۔ (سورہ آل عمران آیہ ۴۹) اور یہ کام اللہ تعالی کی اذن اور اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے۔
جو اعلانیہ طور پر شراب پیتا ہے، اس پر لعنت کرنا جائز ہے اور اس کی حد (سزا) ۸۰ کوڑے ہیں ۔
اگر مجتھد جامع الشرایط اسے تعزیر کے طور پر لینے کے بعد اے بیچے تو اس کے خریدنے میں کویی حرج نہیں ہے۔
اگر قربةً الی الله کی نیت سے ہو، قرعہ اندازی میں شریک ہونے کی غرض سے نہیں تب کوئی اشکال نہیں ہے ۔