مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

چینل اور سلسلہ وار بنانے کی صورت میں قرض الحسنہ سوسائٹی کا قرض دینا

ایک قرض الحسنہ سوسائٹی عوام کو ساتھ سات لاکھ تومان کا قرض دینے کے مقصد سے درج ذیل شرائط کے ساتھ بنائی گئی ہے:۱۔ قرض کے خواہشمند حضرات ، درخواست دیتے وقت مبلغ تین ہزار تومان سوسائٹی کے کارکنان کے محنتانہ کے طور پر، ادا کریں ۔۲۔ درخواست دینے والا ہر آدمی ، قرض کے ضرورتمند تین لوگوں کو آشنا کرائے (یعنی تین ممبر بنائے) اور ان تینوں میں سے بھی ہر آدمی مبلغ تین ہزار تومانمحنتانہ کے طور پر اداکرے ۔۳۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے یہاں تک کہ درخواست دینے والا پہلا شخص، ساتویں نمبر پر پہونچ جائے ، تب اس صورت میں وہ شخص قرض لینے کے لئے اقدامات کرسکتا ہے ۔۴۔ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرض الحسنہ سوسائٹی، مذکورہ محنتانہ کے علاوہ قرض لینے والوں سے مزید اور کوئی فائدہ وصول نہیں کرتی۔شریعت کی رو سے مذکورہ اقتصادی کاموں کا حکم کیا ہے؟

یہ کام حقیقت میں ایک قسم کے جوئے سے مشابہ ہے اور تھوڑا پیچیدہ ہے، افسوس اس کی اصل جڑ مغری دنیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ رقم، محنتانہ طور پر وصول کی جاتی ہے، اور ساتھ لاکھ قرض دیا جاتا ہے جبکہ وہ بھی واپس کمیٹی کی جیب میں چلا جاتا ہے، محنتانہ ان لوگوں کی زحمتوں کا منصفانہ حق ہوتا ہے جو اس ادارے میں کوئی کام انجام دیتے ہیں، جسے اُن کے کام کی مقدار کے مطابق، اجرت کے طور پر انھیں دیا جانا چاہیے اور ایک ہی مرحلہ میں ساٹھ لاکھ تومان کی کثیر رقم کو محنتانہ کا نام دینا ایک قسم کا دھوکہ وفریب ہے، یقیناً آپ حضرات اس ناجائز کام میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں گے ۔

وہ کمپنیاں جو شریک کرنے کی صورت میں رکن بناتی ہیں

حکومتی ادارے کی طرف سے، لوگوں کے درمیان معین رقم کے عوض، ”یتیم خانہ کا تحفہ“ کے عنوان سے فارم فروخت کئے جاتے ہیں، ان میں سے بعض فارموں پر سوالات بھی لکھے ہوتے ہیں کہ جو لوگ ان سوالوں کا صحیح جواب دیں گے، انھیں قرعہ اندازی میں شریک کیا جائے گا اور جن حضرات کا قرعہ میں نام نکلے گا انھیں انعام دیئے جائیں گے، اس کام کے ذمہ دار حضرات کے اظہار کے مطابق، اس کی آمدنی نیک کاموں میں خرچ کی جائے گی، جبکہ فارم خریدنے والے حضرات تین قسم کے ہوتے ہیں:۱۔ بعض حضرات وہ ہیں جو فقط نیک کاموں میں شریک ہونے کی غرض سے مذکورہ قسم کے فارم خریدتے ہیں ۔۲۔ بعض لوگ فقط قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے متمنی ہوتے ہیں ۔۳۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ قرعہ اندازی میں ان کا نام آئے یا نہ آئے بہرحال اُن کے لئے کوئی فرق نہیں ہوتا ۔برائے مہربانی اس کام کے ذمہ دار حضرات ، فارم فروخت کرنے والے اور خریداروں کا حکم بیان فرمائیں؟نیز اس ادارے کی طرف سے ، سیلاب زدہ علاقوں کی امداد کے لئے دوسرے ٹکٹ فروخت ہوتے ہورہے ہیں اس میں قرعہ اندازی میں تمام خریداروں کو شریک کیا جائے گا، اس فرق کے ساتھ کہ ان میں کوئی سوال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ جتنے لوگ خریدیں گے ان سب کو قرعہ اندازی میں شریک کیا جائے گا، اس قسم کے ٹکٹ کا کیا حکم ہے؟

یہ سب کچھ، پہلے بیان شدہ، مقدر آزمانے کی قسم کا کام ہے اور شریعت کی رو سے حرام ہے؛ مگر یہ کہ سب کے سب خریدار پہلی قسم کے ہوں، یعنی فقط مدد کرنے کی نیت سے ٹکٹ یا فارم خریدیں، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ سب لوگ اس طرح کے نہیں ہوتے، بلکہ بہت سے قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے ارادے سے ٹکٹ یا فارم خریدتے ہیں اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ قرعہ اندازی میں انھیں شریک نہیں کیا جائے گا تو راضی نہیں ہوتے اور نیک کاموں میں سے اس آمدنی کو خرچ کرنے سے مسئلہ کی حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی اور اس میں سوالات لکھنے سے بھی یہ مشکل حل نہیں ہوگی، امید ہے کہ غریب ومحتاجوں کی مدد کرنے کے لئے ایسے طریقے اپنائے جائیں جو احکام شرعیہ کے مناسب ہوتے ہیں کہ معاشرے کی مصلحت اور فائدہ اسی میں ہے ۔

مسجد کے موقوفہ رہائشی مکان کو کرایہ پر دینا

ایک امام جماعت سالہا سال سے مسجد کے موقوفہ مکان میں رہتے چلا آرہے ہیں، حالانکہ ان کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی موجود ہے، کیا وہ اس مکان کو چھوڑنے اور اپنے ذاتی مکان میں جانے کے بعد، اس موقوفہ مکان کو کرایہ پردے سکتے ہیں اور خود کرایہ لے سکتے ہیں؟

اگر مکان کو امام جماعت کی سکونت کے لئے بنایا گیا تھا تو اس کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے؛ مگر یہ کہ امام جماعت اس کو استعمال نہ کرے اور معطّل پڑا رہے؛ اس صورت میں اس کو کرایہ پر دیا جاسکتا ہے اور اس کے کرایہ کو مسجد کی ضروریات میں صرف کیا جاسکتا ہے اور اگر امام جماعت مجبور ہے کہ دوسرا گھر کرایہ پر لے تو اس کے کرایہ کا پیسہ امام جماعت کو دیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر اس کا خود ذاتی مکان ہو تو کرایہ کے پیسہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔

آمدنی کا کچھ فےصد حصّہ ادا کرنا

میں ایک دوکاندار ہوں تقریبا بیس سال سے ، گاڑیوں کے پرزے بیچنے کا کام کرتا ہوں ، لیکن میکینک کو قیمت کا کچھ فی صد رقم نہ دینے کی وجہ سے متعدد مالی مشکلات میں گرفتار ہو گیا ہوں ، حضرت عالی کی خدمت میں التماس ہے کہ بکری کی رقم سے حاصل شدہ منافع کا کچھ ، مستریوں کو دینے کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں ؟ ( یہاں پر یہ ذکر کر دینا ضروری ہے کہ قریب قریب دکاندار وں اور کمپنی سے خریدا ری پر نگراں اشخاص اور دفتروں وغیرہ میں پہلے سے طے ہوگیا ہے کہ مستریوں یا خریدو فروخت پر نگراں اشخاص کی طرف سے خرید و فروخت شدہ چیزوں کی فہرست ( رسید ) اور اس کا تحریری ثبوت فراہم کیا جائے اور کچھ فیصد رقم دکاندار کی طرف سے ان لوگون کو ادا کیا جائے ... اور یہ بات بندہ حقیر کی در آمد میں بہت زیادہ کمی کا باعث ہے ، اس لئے کہ میں نے شریعت کی رو سے مذکورہ رقم کی ادائیگی کے مشکوک اور مشتبہ ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی فیصد کے اعتبار سے ایک ریال بھی ادا نہیں کیا ہے؟

آپ کا یہ کام اس صورت میں صحیح ہے کہ جب بیچنے والا ( دکاندار ) اپنے معمولی اور عام طور سے حاصل شدہ منافع کے کچھ حصہ کو درمیان میں واسطہ شخص کے لئے دے، بغیر اس کے کہ جنس کی قیمت پر کچھ رقم بڑھائے مثال کے طور پر جنس یا کسی چیز کو معمول کے مطابق ، دس فی صد فائدہ سے بیچتے ہیں لیکن اس مورد میں دس فی صد منافع کا کچھ حصہ درمیانی شخص کو دیدے اور رہی یہ بات کہ زیادہ قیمت پر جھوٹی رسید بنانا تو یہ حرام ہے اور خدا وند عالم رازق ہے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

”کارٹل“ اور ”ٹراست“ کی بنیاد پر صنعتی اور تجارتی انجمنوں کی تشکیل

گزارش ہے کہ ذیل کے دو سوالوں کا فقہی حکم بیان فرمائیں:۱۔ کارٹل، کمپنیوں کے درمیان ایک آزاد اور اختیاری یونین ہے کہ جو ایک اقتصادی کام میں مشغول ہے اور یہ کمپنیاں تقریباً ایک جیسے ہی سمامان تیار کرتی ہیں، کارٹل یونین بنانے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی دوسری کمپنی وہ مال نہ بنائے ۔۲۔ ٹراست: یہ اقصادی اکائیوں کی ایک ایسی یونین ہے کہ جس کامال کی تیاری اور فروخت میں ایک ہدف ہے اور اس کی کمان بھی ایک ہی ہے، ٹراسٹ کی تشکیل کا مقصد فقط یہ نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا وہ مال نہ بنائے بلکہ اس کے علاوہ دوسرے اہداف جیسے پیداوار کی علمی روشوں سے فائدہ اٹھانا، پیداوار کے خرچ کا کم کرنا، اس گروہ کے تعاون سے بہرہ مند ہونا جو یونین کو تشکیل دیتی ہے وغیرہ، بھی مدّنظر ہیں، البتہ ”کارٹل“ اور ”ٹراسٹ“ کے درمیان عمدہ فرق بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ کارٹل میں شرکاء کی شخصیت کو محفوظ رکھا جاتا ہے اور ٹراسٹ میں شرکاء کی شخصیت اور استقلال کو ختم کیا جاتا ہے، مہربانی فرماکر کارٹل اور ٹراسٹ کے قالب میں اس طرح کی یونیوں کاشرعی حکم بیان فرمائیں؟

اگر دونوں یونینوں میں اختیارات کے حدو حدود روشن ہوں اور شرائط میں کوئی ابہام نہ پایا جاتا ہو اور معاشرے کے لئے قابل توجہ ضرر کا بھی سبب نہ ہو اور اقتصادی ترقی میں مانع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ضرر اور نقصان کی صورت میں ان میں سے کوئی بھی یونین بنانا جائز نہیں ہے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

پراپرٹی ڈیلر کے حق کی ادائےگی

میں، زمین کی خرید و فروخت کرنے کا کام کرتا ہوں یعنی پرا پرٹی ڈیلر ہوں ، کچھ مدت پہلے زید صاحب اپنے بھائی کے لئے مکان خریدنے کے سلسلے میں میرے پاس آئے ، میں نے انھیں اور ان کے بھائی کو ایک مکان دکھایا ، انھوں نے مکان کو دیکھا اور پسند بھی کیا ، اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد مکان مالک اور خریدار نے مجھے درمیان میں لائے بغیر مکان کا اقرار نامہ اور معاملہ انجام دے دیا ، اور اب یہ دونوں بھائی جو خریدار کی حیثیت سے میرے پاس آئے تھے ، میرا حق دینے کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی رو سے ان لوگوں کو مجھے معاملہ میں رکھنا چاہئے تاکہ میرے ذریعہ بیعنامہ ہو اور میرا حق ادا کیا جائے ( یاد رہے کہ ہم بھی گورنمنٹ کو ٹیکس دیتے ہیں اور اگر ایسا ہی ہوتا رہے کہ ہم مکان وغیرہ دکھاتے رہیں اور وہ لوگ خود جاکر معاملہ کرتے رہیں تو ہمارے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے )؟

معاملات کرانے والے ( پرا پرٹی ڈیلر ) کا حق شرعا ادا کریں۔ اور اس طرح سے اس کا حق ضایع نہیں کر سکتے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

قاعدہٴ ”تلف المبیع قبل قبضہ من مال بایعہ“یعنی چیز بکنے کے بعد خریدار کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اگر تلف ہوجائے تو بیچنے والے کی تلف ہوئی ہے

قاعدہٴ ”تلف المبیع قبل قبضہ من مال بایعہ“ کے مطابق اگر فروختہ شدہ چیز، خریدار کے قبضہ میں جانے سے پہلے تلف ہوجائے تو قیمت کی رقم خریدار کو واپس مل جائے گی، بعض قانون داںحضرات کا عقیدہ ہے کہ یہ قاعدہ، اصل قاعدہ کے مخالف ہے، برائے مہربانی آپ فرمائیں کہ یہاں پر مذکورہ اصل قاعدہ کیا ہے؟

اصل قاعدہ یہ ہے کہ معاملہ کے تمام ہونے کے بعد،فروختہ شدہ چیز خریدار کی ملکیت میں آجاتی ہے اور اگر بیچنے والے شخص نے اس چیز کی حفاظت کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو ایک امانت دار کی حیثیت سے وہ اس چیز کے تلف ہونے کا ضامن نہیں ہے لہٰذا مالک (خریدار) کا مال تلف ہوگا، لیکن مقدس شارع نے یہاں پر اصل قاعدہ کو توڑدیا اور بیچنے والے کو ضامن شمار کیا ہے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی