سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

کھائی پی نہ جانے والی اشیاء کا کھائی پی جانے والی اشیاء کو مُہیّا کرنے کے لئے چوری کرنا

اضطراری حالت میں چوری کی حد کے بارے میں نیچے دئےے گئے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیںالف۔ اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ حدسرقت پر عمل درآمد کے شرائط میں سے ایک شرط عدم اضطرار ہے ےہ کہ چوری اضطرار کی وجہ سے واقع ہوئی ہو اور اضطرار کے رفع کرنے میں بلاواسطہ رابطہ رکھتی ہو؟ بعبارت دیگر:آیا ضروری ہے کہ مجرمانہ فعل بلاواسطہ اضطرار اور ضرورت کو رفع کرے؟ مثلا اگر کوئی بھوک مٹانے کے لئے ایک سامان کی چوری کرے تاکہ اسے بیچ کر غذا تہیہ کرے ، کیا احکام اضطرار اس کو شامل ہونگے یا اضطرا ر فقط اس صورت مےں رفع مجازات کا سبب ہوگا کہ جب مضطر بھوک مٹانے کے لئے فقط غذا یا کھائی یا پی جانے والی چیز کی چوری کرے ۔ب۔ کیا اوپر کے فرض میں اس حالت کے درمیان جہاں غذا کا چوری کرنا اور دوسرے سامان کی چوری سے غذا مہیہ کرنا برابر ہو اور اس حالت میں جہاں دو میں سے ایک طریقہ زیادہ سہل ہو یا اس حالت میں جہاں فقط رفع اضطرار اور غذا کا حاصل کرنا دوسرے سامان کی چوری اور ضرورت پر منحصر ہو ، کوئی فرق ہے؟۔

جواب: کوئی فرق نہیں ہے۔جواب: جب بھی دوطریقہ موجود ہوں اور سارق رفع اضطرار کی نیت سے کسی ایک پر اقدام کرے ، اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔

منافع اور حقوق کی چوری کرنا

الف:کیا منافع کا چراناشرعی سرقت ہے اور مجازات کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ؟مثلا کوئی کرایہ پر لی ہوئی ٹیکسی کو حرز میں رکھے اور دوسرا اس کو لے جائے اگر ٹیکسی کا مالک عدالت مےں شکایت نہ کرے کیا کراےہ پر گاڑی لینے والا شخص شکایت اور مال مسروقہ کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے؟۔ب: کیا حق کا چرانا سرقت شمار ہوگا اور اموال کی چوری کی طرح یہ بھی مجازات کے قابل ہے؟ مثلا”الف“ ”ب“ سے ایک موبائل فون کرایہ پرلے تاکہ اس سے ایک مہینہ استفادہ کرے اور اس کا دس ہزار تومان کرایہ دے،”ج“اس فائدہ کو ”الف“ سے غصب کرلے یعنی موبائل فون کی چوری کا تو قصد نہیں رکھتا تھا لیکن چاہتا تھا کہ ایک مہینہ تک اس کو استعمال کرے پھر اس کے مالک کو پلٹا دے ،کیا”ج“ کا ےہ عمل،موبائیل کو کرایہ پر لینے والے کے حق کی سرقت شمار ہوگی اور اس کی کوئی سزا بھی ہے ؟

جواب :الف و ب۔ منافع اور حق کی سرقت کو اموال کی سرقت کے احکام شامل نہیں ہوتے، لیکن ےہ عمل قابل تعذیر ہے۔

چور کے مال کی چوری کرنا

کیا چوری ہوئے مال کی چوری کی کوئی سزا ہے ؟ اگر ہاں توکیا ہے۔

جواب: اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ چور کئے ہوئے مال کی چوری کی کیا سزا ہے تو جواب یہ ہے کہ اس کام کی کوئی شرعی حد نہیں ہے ، لیکن ےہ کام لوگوں کے اموال میں تصرف کی خاطر تعذیر رکھتا ہے۔

اس مال کی چوری جس کو مالک کی اطلاع کے بغیر حرز میں رکھا گیا ہو

چوری کی حد جاری کرنے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مال حرز میں ہوتو آپ فرمائیں:الف) اگر بیٹا، دوست، پڑوسی، نوکر یا کوئی اور شخص صاحب مال کی اطلاع یا بغیر اطلاع کے مال کو حرز میں رکھ دے، کیا دوسرے شرائط کے ہوتے ہوئے ایسے مال کا اٹھالینا اس چوری میں شمار کیا جائے گا جس پر حد جاری کرنا لازم ہے؟ب) اگر مالک کی دخالت اور اطلاع کے بغیر مال حرز میں رکھا جائے اور چوری ہو جائے، کیا دیگر شرائط کے ہوتے ہوئے سزا والی چوری کا حکم رکھتی ہے؟ مثلاً اگر کوئی حیوان بغیر مالک کی اطلاع کے احاطے میں چلاجائے اور احاطے کا دروازہ بند ہوجائے پھر کوئی حیوان کو لے جائے کیا سرقت حدی شمار ہوگی؟ یا مثلاً کسی شخص کو کوئی مال مل جائے وہ اس کو حرز میں رکھ دے اور یہ مال چوری ہوجائے، اس کا کیا حکم ہے؟ج) اگر صاحب مال، ما ل کو حرز میں نہ رکھے اور حرز میں رکھنے پر راضی بھی نہ ہو اور مال چوری ہوجائے، کیا دوسرے تمام شرائط کے ہوتے ہوئے حد قطع (انگلیوں کا کاٹنا) جاری ہوگی؟

جواب: چنانچہ صاحب مال کے حکم یااطلاع سے حرز میں رکھا گیا ہوتو سزا والی چوری شمار ہوگی اور اس کی عدم اطلاع کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ حد جاری نہ کی جائے۔جواب: جاری نہیں ہوگی۔

اقسام: چوری کی حد

چور کے کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑ نا

چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد، کیا چور، اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو طبّی مدد کے ذریعہ جڑوا سکتا ہے؟

فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱.۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵.

اقسام: چوری کی حد

انسانی جسد (میت ) چوری کرنے پر حَد کا اجرا

کیا انسانی جسد (جسم مثلاً مردہ جسم) کا مال میں شمار ہوگا، نیز کیا جائز مقاصد کے لئے اس کی خرید وفروخت جائز ہے؟ آیا وہ چور کے جرم کے لئے عنوان اور موضوع بن سکتا ہے یا نہیں؟خصوصاً جب اسے مرے ہوئے کئی صدیاں گذر گئی ہوں اور تاریخ دانوں وغیرہ کے لئے موضوع، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

مسلمان میّت کے جسم کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، اس کا مردہ جسم، مال شمار نہیں ہوگا، اب رہا غیر مسلم کا مردہ جسم تو ان جائز مقاصد کے لئے بھی جیسے بعض موقعوں پر پوسٹ مارٹم کرنا جائز ہوتا ہے، اشکال سے خالی نہیں ہے اور ہرحال میں چوری کی حد کا اجرا کرنا مشکل ہے ۔

اقسام: چوری کی حد
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت