دھمکی کا جواب دینے کی صورت میں اکراہ کا متحقق نہ ہونا
کیا دھمکیوں کا غیر قابل رفع ہونا تحقق اکراہ کی شرط ہے؟ کیا اس صورت میں احکام وضعیہ اور تکلیفیہ میں فرق ہے؟
اگر کوئی دھمکیوں کا مقابلہ کرسکتا ہو تو اس صورت میں اکراہ صدق نہیں کرتا ۔
اگر کوئی دھمکیوں کا مقابلہ کرسکتا ہو تو اس صورت میں اکراہ صدق نہیں کرتا ۔
اگر توریہ کے ذریعہ گردن خلاصی کا امکان ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اس راہ کو استعمال کرے ۔
عدم النفع کی صورت میں اکراہ صدق نہیں کرتا ۔
جواب : سوال کے فرضمیں یہ قتل شبہ عمد شمار ہوگا۔
جواب : ان میں سے کوئی بھی امر جائز نہیں ہے۔
جواب : ان موراد میں جو قصاص کا سبب بنتے ہیں ، اگر شاکی قصاص کا تقاضا کرے تو قصاص جاری ہوگا اور اگر شاکی قصاص کے بدلے جرمانہ پر راضی ہوگیا تھا تو قصاص کا حکم ساقط ہے اور اگر راضی نہیں ہوا تھا تو جرمانے کی رقم کو واپس کرکے قصاص کا تقاضا کرسکتا ہے ۔جواب : حدود والے جرائم میں حد ساقط نہیں ہوگی؛ کیوں کہ ان میں حد کے جاری کرنے کے شرائط نہیں پائے جاتے لہٰذاوہ حد کے قائل نہیں ہیں۔جواب : اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ تعزیر نظر حاکم سے مربوط ہے اگر وہاں پر ان کو تعذیر کردیا گیا تھا ہر چند کہ تعذیر، زندان کی صورت میں تھی تو حاکم شرع یہاں کی تعذیر میں تخفےف دے سکتا ہے، چاہے تعذیر ملامت اور سرزنش کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔
جواب : پہلے قصاص کیا جائے گا پھر محارب کی حد جاری ہوگی۔
جواب : قصاص نہیں کیا جائے گا، مگر دیت دینا ہوگی ۔
انسانی قتل، اسلام میں خصوصی پہلو کا حامل ہے اور مقتول کی جانب سے خون معاف کرتے ہی، قصاص کا حکم ختم ہوجاتا ہے، مگر یہ کہ متعدد بار ایسا کرنے سے، معاشرے پر کوئی خاص اثر پڑے اور معاشرے کا نظم وضبط اور امن وامان برباد ہوجائے، اس صورت میں یہ مسئلہ عام رخ اختیار کرلیتا ہے اور عنوان ثانوی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے لہٰذا مذکورہ سوال ہی میں نہیں بلکہ اس کے جیسے واقعات میں جو گاؤں دیہاتوں یا شہروں میں پیش آتے ہیں، حاکم شرع کو معاشرے کے نظم وضبط کی تمہید کے طور پر (یعنی امن وامان قائم کرنے کی غرض سے) ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مناسب تعزیری سزادینے کا حق ہوتا ہے ، نیز اس مسئلہ کو ان مسائل میں جاری بھی کیا جاسکتا ہے جو شریعت میں خصوصی پہلو کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا جب بھی کوئی مسئلہ یا مشکل عام رخ اختیار کرے تو تعزیری سزاؤں کا استعمال کیا جاسکتا ہے، البتہ موضوع کی تشخیص خود حاکم شرع کے ذمہ ہے اور کبھی کبھی اُسے (یعنی حاکم شرع کو) اس قسم کے موضوعات میں باخبر اور اہل فن کے نظریوں کو جاننے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔
اگر قاتل نے مدّمقابل شخص پر حملہ آور ہونے کا گمان کرکے گولی چلائی ہے، تو قصاص نہیں ہے لیکن دیت ضرور ادا کرے ۔
قصاص کا حق ہے لیکن دوسرے شخص کو بھی دوبارہ انگلی لگوانے اور علاج کروانے کا حق ہوگا ۔
لازم ہے کہ پہلے ہو (یعنی قصاص کرنے سے پہلے غسل وکفن دیا جائے
قصاص کسی خاص وقت سے مقید نہیں ہے۔
دیت کو اس کے مال سے لے سکتے ہیں۔
۱۔ سے ۴/تک : اس صورت میں جبکہ شخص جانی کے حالات تبدیل نہ ہوئے ہوں تو اس کا تنگدستی کا دعوا قبول نہیں ہوگا؛ لیکن اگر حالات بدل گئے ہوں مثلاً اس مدت میں اس کو مہم ضرر اور نقصان پہنچا ہو تو اس کا یہ دعوا شہود کی شہادت کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔