سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

گداگری کا شرعی حکم

جیسا کہ حضور کو معلوم ہے کہ تعزیرات اسلامی کی دفعہ ۶۱۲ اور ۶۱۳ میں گدائی کو جرم شمار کیا گیا ہے اور اس کے لئے قید کی سزا کو معیّن ہے، لہٰذا جزائی صفت اور شرعی حرمت کے بارے میں اپنی شریف نظر بیان فرمائیں، اور یہ بھی فرمائیں کہ حکومت اسلامی میں اس کی روک تھام اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کس قانونی ادارہ کے ذمہ ہے؟

جس کو ضرورت نہیں ہے اس کے لئے حرام ہے کہ گدائی کرے، یہاں تک کہ ضرورت کی صورت میں حکومت اسلامی کو چاہیے کہ ایسے پروگرام ترتیب دے جس سے وہ لوگ آبرومندانہ زندگی گذار سکیں، اور اس حکم کے جاری کی ذمہ دار انتظامیہ اور عدلیہ ہیں اور وہ دوسرے ادارے جو حکومت کی طرف سے معین ہوتے ہیں ۔

گداؤں (بھکاریوں) کے مال ودولت

اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ بهیکاریوں کے ساتھ جرم کے عنوان سے کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی، بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پورے شہر میں فقیر اور تہی دست کے عنوان سے بھیک مانگتے ہیں، لوگ بھی ان کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے ہمدردی اور راٴفت کی رو سے ان کی مدد کرتے ہیں اور چونکہ ان فغقیروں کو اکھٹا کرنے پر ایک توافق انجام پایا ہے کہ جس کی ذمہ دار شہر داری اور انتظامیہ ہے اور ان کے ایک جگہ پر رکھنے کی ذمہ دار ”سازمان بہزیستی“ ہے کہ جس کا مرکز ہدایت (ہیڈکواٹر) کے نام سے مشہور ہے جتنی مدت یہ بھکاری لوگ اس مرکز میں ٹھہرائے جاتے ہیں اس مدت میں ان کو نہانے، دھونے، غذا لباس اور دیگر ضروریات زندگی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس سلسلے میں جناب عالی سے کچھ سوال مطلوب ہیں:۱۔ اس دستور العمل کے مطابق جو ”بہزیستی سازمان“ سے مراکز کو بھیجا گیا ہے، ہر فقیر کی سکونت کا ایک رات ایک دن کا خرچ ۱۵۰۰۰(پندرہ ہزار)ریال ہے جو ان سے لیا جائے گا ۔ کیا اتنا پیسہ لینا جائز ہے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس سے زیادہ لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ (قابل ذکر ہے کہ یہ پیسہ اُن پر یا دوسرے گداؤں پر خرچ ہوتا ہے)۲۔ بعض گدالوگ محجور ہیں اور ان کی قوہ عاقلہ زائل ہوگئی ہے اور ان میں سے بہت سےبہت زیادہ دولتمند ہیں اور کچھ کے گھر والوں کی ہم کو کوئی خبر نہیں ہے، اور چونکہ ہم ان کو ہمیشہ تو اپنے پاس رکھ نہیں سکتے، لہٰذا مجبور ہیں کہ ان کو چند روز بعد ان کے شہر اور محل سکونت میں پہنچادیں،لیکن ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ یہ اپنا پیسہ نہ کھو بیٹھیں ، کیا جائز ہے کہ ان سے پیسہ لے لیا جائے اور ”سازمان بہزیستی“ کے سپرد کردیا جائے تاکہ تمام مستحقین اور قابل امداد کہ جو اس مرکز کے تحت ہیں ان پر صرف کیا جائے؟

اوّلاً: اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ مسئلہ شرعی نظر سے پیچیدہ ہے، لہٰذا اس میں احتیاط اور باریک بینی سے عمل کیا جائے تاکہ آپ خلاف شرع کے مرتکب نہ ہوجائیں ۔ثانیاً: گداؤں کا وہ گروہ جس کے پاس زیادہ دولت اوزر ثروت ہے ان کے اموال مجہول المالک کے زمرہ میں ہیں، فقط ان کے ایک سال کے خرچ کے علاوہ اضافی پیسے کا دوسرے فقیر پر خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور وہ گدا جس کے پاس پیسہ کم ہے وہ سب کا سب انھیں کا مال ہے اور ان کے خرچ کے لئے اس پیسے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک دن کا خرچ مبلغ۰ ۱۵۰۰(پندرہ ہزار)ریال ان خدمات کے عوض ان سے لینا جو اُن کو دی جاتی ہیں بہت زیادہ ہے، مگر یہ کہ وہ مریض ہوں اور ان کو دن رات میں اتنی مقدار کی ضرورت ہو ۔ثالثاً: وہ گدا جو بہت زیادہ لاغر ہیں اور کام نہیں کرسکتے ان کے اموال کو دوسروں پر خرچ نہ کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ سال گذر جانے کے بعد بھی اسی چیز کا شکار ہوں گے ۔

کمپٹیشن میں پاس ہونے میں جعلسازی

میں نے گذشتہ سال انجینیری کے کمپٹیشن میں شرکت کی تھی لیکن افسوس کہ میں نے امتحان کے پورے پرچے کو نقل وغیرہ سے پُر کیا تھا، یہ ایسا کام تھا کہ جس کی وجہ سے اب تک میں نہیں جان سکا ہوں! بہرحال اس سال ”شہریور“ کے مہینے میں، جب نتائج کا اعلان ہوا تو مجھے مذکورہ درجہ میں قبول کرلیا گیا، اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ انتخاب، علمی نمبروں کے اعتبار سے انجام پاتا ہے تو گویا میں نے ایک شخص کے حق کو ضائع کیا ہے لہٰذابہت زیادہ روحی عذاب میں گرفتار ہوں اور تعلیم چھوڑنے کا قصد رکھتا ہوں، مہربانی فرماکر بتائیں کہ میرا کیا وظیفہ ہے؟

مفروضہ مسئلہ میں اگر تمھارا پڑھائی چھوڑنا سبب ہوتا ہو کہ کوئی دوسرا طالب علم تمھاری جگہ قبول کرلیا جائے گا تو ضروری ہے کہ تم تعلیم چھوڑدو، لیکن اگر اس کا وقت گذر گیا ہے تو ترک تعلیم لازم نہیں ہے لیکن کوشش کرو کہ آئندہ کبھی بھی نقل وغیرہ کے پیچھے نہ جاؤ اور گذشتہ خطاء اور ضائع شدہ حق کو صاحب حق کے حق میں اعمال صالحہ انجام دینے سے تلافی کرو ۔

اقسام: تقلب

”کارٹل“ اور ”ٹراست“ کی بنیاد پر صنعتی اور تجارتی انجمنوں کی تشکیل

گزارش ہے کہ ذیل کے دو سوالوں کا فقہی حکم بیان فرمائیں:۱۔ کارٹل، کمپنیوں کے درمیان ایک آزاد اور اختیاری یونین ہے کہ جو ایک اقتصادی کام میں مشغول ہے اور یہ کمپنیاں تقریباً ایک جیسے ہی سمامان تیار کرتی ہیں، کارٹل یونین بنانے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی دوسری کمپنی وہ مال نہ بنائے ۔۲۔ ٹراست: یہ اقصادی اکائیوں کی ایک ایسی یونین ہے کہ جس کامال کی تیاری اور فروخت میں ایک ہدف ہے اور اس کی کمان بھی ایک ہی ہے، ٹراسٹ کی تشکیل کا مقصد فقط یہ نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا وہ مال نہ بنائے بلکہ اس کے علاوہ دوسرے اہداف جیسے پیداوار کی علمی روشوں سے فائدہ اٹھانا، پیداوار کے خرچ کا کم کرنا، اس گروہ کے تعاون سے بہرہ مند ہونا جو یونین کو تشکیل دیتی ہے وغیرہ، بھی مدّنظر ہیں، البتہ ”کارٹل“ اور ”ٹراسٹ“ کے درمیان عمدہ فرق بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ کارٹل میں شرکاء کی شخصیت کو محفوظ رکھا جاتا ہے اور ٹراسٹ میں شرکاء کی شخصیت اور استقلال کو ختم کیا جاتا ہے، مہربانی فرماکر کارٹل اور ٹراسٹ کے قالب میں اس طرح کی یونیوں کاشرعی حکم بیان فرمائیں؟

اگر دونوں یونینوں میں اختیارات کے حدو حدود روشن ہوں اور شرائط میں کوئی ابہام نہ پایا جاتا ہو اور معاشرے کے لئے قابل توجہ ضرر کا بھی سبب نہ ہو اور اقتصادی ترقی میں مانع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ضرر اور نقصان کی صورت میں ان میں سے کوئی بھی یونین بنانا جائز نہیں ہے ۔

عُمر کے بیمے کی حقیقت

ذیل میں دیئے گئے سوالات کے سلسلے میں اپنی بابرکت نظر بیان فرمائیں:۱۔ عمر کا بیمہ عقود میں سے ہے یا ایقاعات میں سے؟کیا یہ معمولی اور رائج عقود وایقاعات میں سے ہے اور اس پر فقہی عنوان صادق آتا ہے، یا موجودہ عناوین اس پر منطبق نہیں ہوتا؟۲۔ عمر کا بیمہ، عہدی وصیت کی قسم ہے یا تملیکی وصیت کی؟۳۔ عمر کے بیمہ کی نوعیت کو مدّنظر رکھتے ہوئے، کیا بیمہ شدہ شخص اُس پیسے کو جو اس کی موت کے بعد ملنے والا ہے، اپنی موت سے پہلے ہی اس کے حصّے معیّن کرسکتا ہے اور شرعی اور غیر شرعی وارثین کے لئے اس کی وصیت کرسکتا ہے؟۴۔ اگر بیمہ شدہ شخص نہ ہی تو حصّے معیّن کرے اور نہ ہی شخص کو معین کرے تو اس صورت میں بیمہ کے موجودہ قوانین کے مطابق، بیمہ سے ادا ہوئی رقم کو قانونی وارثین کے درمیان بطور مساوی تقسیم کیا جاتا ہے، کیا اس طرح کی تقسیم جنابعالی کے فقہی فتوے کے مطابق ہے؟

۱، سے۴ تک: بیمہ ایک عقد مستحدثہ (نیا عقد) ہے کہ جو عقلاء کے درمیان رائج ہے اور اگر اس میں عقود کے شرائط موجود ہوں تو اس کے صحیح ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے، اور جس طرح معاہدہ ہوا ہے اسی کے مطابق ہونا چاہیے، اور اشخاص کے حصّے کو فیصد کے حساب سے معیّن کرسکتا ہے نہ کہ ریال کے حساب سے، اور اس کو عہد پر وفا کرنے کی دلیلیں شامل ہیں ۔

قران میں شفاعت کا ذکر

ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)، ائمہ معصومین (علیهم السلام) اور جناب فاطمہ زہرا (علیها السلام) کچھ افراد کی شفاعت کریں گے، حقیر جب کچھ مدّت پہلے قرآن شریف کی تلاوت کررہا تھا تو سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر ۴۸ میں اس مضمون کو پایا کہ جس میں خداوندعالم فرماتا ہے: ”اس دن سے ڈرو کہ جب کوئی شخص کسی شخص کی سزا نہ بھُگتے گا اور کسی کی بھی شفاعت کو قبول نہ کیا جائے گا“ التماس ہے کہ اس سلسلے میں مزید وضاحت فرمائیں ۔

اس آیت کے معنی کا سمجھنا شفاعت کے باب میں وارد ہوئی تمام آیتوں کے معنی کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ جن میں صریح اور واضح طور سے شفاعت ثابت ہے؛ جیسے آیت الکرسی میں اس بنیاد پر آپ کی ذکر کردہ آیت جس میں شفاعت کی نفی ہوئی ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے بغیر اذن خدا کسی کی بھی شفاعت قبول نہ ہوگی اور خداوندعالم بھی اُس جگہ پر اذن دے گا جہاں مدّمقابل بھی شفاعت کی لیاقت رکھتا ہو، اس سے بیشتر وضاحت کو تفسیر نمونہ کی پہلی جلد میں اسی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔

اقسام: شفاعت

رجعت کے وقوع کا زمانہ

رجعت کس زمانہ میں واقع ہوگی حضرت ولی عصر ارواحنا الفداء کی حیات اور حکومت کے زمانے میں یا آپ(علیه السلام) کی شہادت کے بعد؟

روایات کے مطابق، رجعت آپ(علیه السلام) کے قیام اور ظہور کے بعد واقع ہوگی، اور ائمہ (علیهم السلام) کی ایک کے بعد دوسرے کی رجعت، امام مہدی(علیه السلام) کی شہادت کے بعد واقع ہوگی۔

اقسام: رجعت
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت