سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

ملاٴ عام میں کوڑے کی حد کا جاری کرنا

آیہٴ شریفہ کو نظر میں رکھتے ہوئے تازیانے (کوڑا) کی حد کے سلسلے میں ذیل میں دئے گئے سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) طائفہ سے کیا مراد ہے؟ کیا تازیانے لگاتے وقت ایک بند مکان میں چند اشخاص کا ہونا کافی ہے، یا ملاٴ عام میں ہونا چاہیے؟ب) مومن کون لوگ ہیں؟ ایمان بمعنای خاص یا بہ معنای عام؟ج) فوق الذکر شروط کی رعا یت کرنا واجب ہے یا مستحب؟د) مذکورہ آیہٴ شریفہ کا حکم تعزیری تازیانے لگانے کی طرف بھی سرایت کرتا ہے؟

جواب: ملاٴ عام میں ہونا لازم نہیں ہے، لیکن ان موارد میں جہاں بہت سے لوگ جرم سے باخبر ہوگئے ہیں اور ملاٴ عام میں سزا کا اجراء مطلوب اثر رکھتا ہوتو اس صورت میں اولیٰ یہ ہے کہ ملاٴ عام میں کوڑے لگائیں جائیں۔جواب ب: ایما ن سے مراد ، بہ معنای عام ہے۔جواب ج: کچھ مومنین کا حاضر ہونا لازمی ہے۔جواب: تازیانے لگاتے وقت ایک طائفہ کے حاضر ہونے کے وجوب کا حکم لگانا مشکل ہے؛ لیکن اس کے جائز ہونے میں اگر لوگوں کی تنبیہ کے لئے مفید ہوکوئی اشکال نہیں ہے۔

انکم ٹیکس کا زیاده آنا

میری ایک دو کاان ہے اور میرے علاوہ میرے خاندان کے دیگر افراد بھی اس میں شریک ہیں اور کام کرتے ہیں اور میں الحمداللہ بچپنے سے ہی خمس دینے کا پائند ہوں اور ہر سال وجوہات شرعی ادا کرتا ہوں ۔ انقلاب اسلامی کے بعد ہر رقم میں سے کچھ، کسی نہ کسی بھی بہانے سے نکالتا ہوں ، خمس اور دیگر وجوہات شرعیہ کے لئے تو ایک مقدار معین ہے اور ہر مسلمان پر اس کا نکالنا واجب ہے اب رہا ٹیکس تو اس کی ادائیگی ہر با شندے کا قومی وظیفہ ہے اور اس کو بھی ادا کرنا چاہیے لیکن اس سے زیادہ کا وصول کرنے پر کوئی شرعی دلیل اور شرعی حجت نہیں ہے ۔ کیا ملک کی رونق کے لئے زیادہ کام کرنے کی جزاء جریمہ کا ادا کرنا ہے؟ اگر زیادہ کام نہ کرنا چاہیے اور زیادہ محنت نہ کرنا چاہیے تو کیوں علماء کرام، معصومین علیہم السلام کے اقوال سنا کر ہماری تشویق کرتے ہیں؟

جب ملک کی مشکلات کے حل کے کے لئے ٹیکس لینا ضروری ہو تو عادلانہ صورت میں لینا چاہیے، تاکہ لوگوں کو زیادہ کام زیادہ کوشش کی ترغیب دلائیں کہ جیسا کہ سنا گیا ہے زیادہ ٹیکس کہ جسکا نا مطلوب ہونا ثابت ہے، اس کی اصلاح کے اوپر تحقیق جاری ہے ۔

ربیع الاول کی چاند رات کو مسجد کی پشت پر اجتماع

کچھ سالوں سے بہت سی مسجدوں میں ایک چیز کا رواج بڑھتا جارہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کی خرافات ہے، داستان اس طرح ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے کی پہلی تاریخ کی رات میں، آدھی رات سے اذان صبح تک، کچھ لوگ، (جن میں اکثر خواتین ہوتی ہیں) ہاتھ میں شمع لئے ہوئے مسجد کے پیچھے جمع ہوتی ہیںاور آہستہ آہستہ مسجد کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور دعا وٴمناجات اور کچھ اذکار پڑھتے ہوئے اپنی حاجت طلب کرتی ہیں اور تضرع وگریہ وزاری کی یہ حالت اذان صبح کے وقت اپنی پوری ترقی ہوتی ہے جو بھی اس طرح کا عمل انجام دیتی ہے تو جیسا کہ اس جلسہ میں موجود بعض خواتین سے سنا گیا ہے کہ: یہ کام ہم وغم کے دور کرنے، حاجتوں کے برآوردہ ہونے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے دل کی تسلّی کا باعث ہوتا ہے ۔لہٰذا حضور فرمائیں:۱۔ کیا ایسے عمل کی بنیاد، کوئی روایت ہے؟۲۔ کیا ایسا عمل(کہ جو پھیلتا جارہا ہے) شائستہ اور اچھے عمل ہونے کی حیثیت سے دوسروں کے لئے پیروی کا باعث ہے ۔۳۔ اگر یہ عمل (خدانخواستہ) خرافات اور ایک طرح کی بدعت ہو تو آئمہ جماعت اور متدین مومنین کا کیا وظیفہ ہے؟

اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ عمل معصومین کی روایات میں وارد نہیں ہوا ہے تو اس کو شرعی مسحتب کی حیثیت سے انجام دینا جائز نہیں ہے اور بہتر ہے کہ آئمہ جماعت لوگوں کو اُن توسّلات اور راز ونیاز کی طرف دعوت دیں کہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں وارد ہوئے ہیں، ورنہ ممکن ہے کہ منحرف افراد مذہب کی توہین کے لئے ہر روز ایک نئی بدعت ایجاد کریں اور اچانک اس کی طرف دعوت دیں ۔

ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود

بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟

مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔

الیکشن میں کھڑے ہونے والے امید وار پر مجمع میں تبصرہ

الیکشن میں کھڑے ہونے والے کینڈیڈیٹ کے بارے سب کے سامنے یا دو لوگوں کا آپس میں تنقید اور اس کی برائیاں بیان کرنے کا کیا حکم ہے؟

اگر ان کو ووٹ دینے کے سلسلہ میں یہ مشورہ کی کڑی ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس میں ان کے صفات کا بیان ہونا چاہیے، ان کی توہین و تحقیر و تزلیل یا خدا نخواستہ ان پر تہمت نہیں لگانا چاہیے۔

اقسام: الیکشن

جنگلات کی ملکیت

کیا جنگلات پر ملکیت کا حکم جاری ہوتا ہے نیز کیا ان پر میراث ، وقف اور اجارہ وغیرہ کے مسائل جاری ہوں گے؟

جواب: ظاہر یہ ہے کہ اس طرح کے جنگلات پر ملکیت کا حکم جاری ہوتا ہے اور ان پر میراث، وقف اور اجارہ وغیرہ کے مسائل کا جاری کرنا صحیح ہے لیکن اسلامی حکومت قائم ہونے اور حکومت کا جنگلوں کو اپنی ملکیت میں لانے سے روکنے کے بعد ، حکومت کی مرضی کے بغیر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔

اقسام: انفال

زمانہ حاضر میں انفال کا حکم

آیات اور روایات کے ظاہری معنی کے مطابق، انفال دنیا کے تمام بیابانوں، پہاڑوں، جنگلوں اورسب دریاؤں کو شامل ہے ؛لیکن موجودہ شرائط میں بین الاقوامی ملکی سرحدیں معین ہیں جو تمام حکومتوںکے لئے قابل قبول ہیں اس صورت میں کیا انفال بھی ان سرحدوں میں محدود ہوجائے گا؟

جواب: ظاہر روایات بلکہ بہت سی روایات کی صراحت کے مطابق، انفال روئے زمین کے تمام منافع کو شامل ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ حاکم اسلامی اور ولی فقیہ مسلمانوں کے مفاد کے مطابق جہانی قوانین کا لحاظ کرسکتا ہے ۔

اقسام: انفال

فرار مجرموں کے گھر کی قرقی کا حکم

کیا ملک چھوڑ کر بھاگ جانے والے افراد کے گھر کی قرقی کرنا جایز ہے؟ کیا صرف ملک چھوڑ کر بھاگ جانا ہی قرقی کے جواز کے لیے کافی ہے؟

رقی، صرف کسی فقہی عنوان کے تحت ہی کی جا سکتی ہے اور صرف ملک چھوڑ دینا یا فرار ہو جانا قرقی کا جواز نہیں بن سکتا بلکہ قرقی شرعی اعتبار سے ثابت ہونا چاہیے مثلا یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے سارا مال نا جایز طریقے سے ہتھیایا ہے اور مجہول المالک (جس مال کا مالک معلوم نہ ہو) کے حکم میں آ جائے۔

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت