زندہ افراد کی طرف سے اعمال خیر انجام دینا
کیا کسی کی زندگی میں اس کی طرف سے ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے جسیے مسجد میں قرآن وغیرہ ہدیہ کرنا ؟
ایصال ثواب زندہ و مردہ دونوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
ایصال ثواب زندہ و مردہ دونوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
اگر مزدوری کے عنوان سے لیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر گناہ کا سبب نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
حجاب اور دوسری شرعی باتوں کی رعایت کے ساتھ کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر بے احترامی کا قصد نہیں ہے تو حرام نہیں ہے البتہ ضرورت نہ ہو تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
سیادت عظمت و بزرگی کے معنا میں ہے اور نبی اسلام (ص) کی عظمت و جلالت اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور آپ کے اجداد جناب ہاشم تک سب آپ کی وجہ سے سادات اور با عظمت تھے اور حضرت علی علیہ السلام اپنے بلند مقام کے علاوہ بنی ہاشم سے ہیں۔
عام طور سے ایسے لوگوں کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور گمشدہ شی کی تلاش کے لیے ان کے پاس جانا جایز نہیں ہے۔
اگر ان قوانین نے دقت کے ساتھ قانونی مراحل طے کیے ہیں تو وہ یقینا اسلامی شرع سے مطابقت رکھتے ہیں۔
مستعد اور ایسے لوگوں کے لیے جن کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے علم دین کے حصول کا واجب عینی ہونا بعید نہیں ہے۔
ریا کاری ہر عبادت میں حرام ہے۔ البتہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور شعائر الہی میں قصد تربت کی نیت کے ساتھ تظاہر کرنا جایز بلکہ بہتر ہے۔ مثلا آشکارا صدقہ دے تا کہ دوسرے لوگوں میں بھی شوق پیدا ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے، مستحب ہے۔
ایسے لوگوں کی ہمنشینی ترک کرنا بہتر ہے اور اگر شک قوی ہو تو ان کی صحبت ترک کرنا واجب ہے۔
ایسے لوگوں کی ہمنشینی ترک کرنا بہتر ہے اور اگر شک قوی ہو تو ان کی صحبت ترک کرنا واجب ہے۔
اگر وہ اسے نہی عن المنکر کر سکتا ہے اور نہیں کرتا تو فاسق ہے۔
اگر وہ اسے نہی عن المنکر کر سکتا ہے اور نہیں کرتا تو فاسق ہے۔
اس طرح کے کام کوتاہ یا دراز مدت کے بعد اسلام کی توہین کا باعث ہونگے لہذا ایسا کرنا جایز نہیں ہے۔