مقر کا غیر معین مقر لہ کے لیئے اقرار کا حکم
مردّد شخص کے لئے اقرا رکے آثار (نتائج) بیان فرمائیں:الف) کیا ایسا اقرار صحیح ہے؟ب) صحیح ہونے کی صورت میں مقرّلہ کا معین کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور یہ کیسے انجام پائے گا؟ج) اقرار کے معین ہونے کے بعد مقرّ یا مقرلہ یا مخاطبین کے درمیان اختلاف کی صورت میں کیا حکم ہے؟د) اگر کوئی اور شخص مقرّلہ ہونے کا ادعا کرے، اس کا ادّعا کیا اثر رکھتا ہے؟ کیا اس صورت میں مقرّلہ پر عنوان مدّعی، وطرف دیگر پر عنوان منکر صادق آتا ہے، نتیجةً کیا یہاں پر مخاصمہ (مقدمہ) کی صورت پیدا ہوجائے گی؟ھ) اگر مقرّلہ کے علاوہ مقرّبہ بھی مردّد ومبہم ہو، تو کیا نتیجہ نکلتا ہے؟و) اگر مقرّ، مقرّلہ کے معین کرنے سے خودداری کرے یالاعلمی کا اظہار کرے اور وہ دونو ں (یعنی مردّد اشخاص ) اس کی تصدیق کریں تو کیا تعیّن لازمی ہوجائے گا، یا یہاں پر کوئی اور حکم ہے؟ز) اگر مقرّ معین کرنے سے خودداری کرے یا لاعلمی کا اظہار کرے، وہ دونوں یا ان میں سے ایک مقرّ کے عالم ہونے کا ادعا کریں، کیاقسم کے ذریعہ مقرّ کا ادّعا قبول کیا جاسکتا ہے؟۔ح) کیا اقرار کے لئے مخاطبین کی تصدیق یا عدم تصدیق ، مقرّ کی لاعلمی کے اظہار کی بہ نسبت کوئی اثر رکھتی ہے؟
جواب: مبہم شخص کے لئے اقرار کرنا جائز ہے ، لیکن حاکم شرع ،مقرّ کو مُلزَم (مجبور) کرے گا کہ اپنے اقرار کے لئے مناسب تشریح بیان کرے، تشریح سے امتناع کی صورت میں حاکم شرع اس کو قید یا تعزیر کرسکتا ہے، بہرحال اس کے اقرار کی قدر متیقّن حجت ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کیا جاسکتا ہے، مگر قسم کے حکم کا اجراء ان جیسے موارد کے لئے مشکل ہے۔