مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

دھوکاد ھڑی اور زور ربردستی سے اقرار لینا

ایک شخص ایک پر جمعیت عمومی جگہ پر ، یا حکومت کے کارکنان کے کام کرنے کی جگہ پر ، بمب گذاری یا دہشت گردی کے عملیات کے جرم میں ملزِم ہے یا اغوا اور فساد فی الارض کے جرم میں ملوث ہے، جب بھی وہ شواہد وقرائن کہ جو قاضی کی فائل میں موجود ہیں، قاضی کے لئے علم آور ہوں، یا ملزم اقرار کرلے اور نتیجةً جرم ثابت ہوجائے، لیکن اس کے باوجود یہ مذکورہ شخص بمب گذاری کے نقشہ کے فاش کرنے ، زمان ومکان کے دقیقاً بتانے اور شرکاء کے نام لینے سے خودداری کرے ، کیا قاضی ،ملزِم سے ان مہم اطلاعات کو حاصل کرنے کے لئے اور دہشتگردی کے عملیات کا سدباب کرنے کے لئے کہ اگر یہ عملیات محقق ہوجائیں تو بہت زیادہ نقصان کا باعث بنیں گے، ان جیسے استدلال ”دفع افسد بہ فاسد“ افسد کو فاسد سے دفع کرنا، ”ترجیح اہم برمہم “ مہم پر اہم کو ترجیح دینا ”الضرورات تبیح المحذورات“ ضرورتیں، ممنوعہ کام کو مباح کردیتی ہیں، ”اوجب بودن حفظ نظام“ نظام کی حفاظت کرنا زیادہ واجب ہے، کے ذریعہ ملزِم کو شکنجہ کرنے کا حکم دے سکتا ہے تاکہ اس قضیہ کی فوریت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کم سے کم وقت میں اقرار کرلے؟ کیا ایسا اقرار حجت ہے؟

جواب: شکنجہ کرنا جائز نہیں ہے۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام

نسب کے اوپر شھود کی شہادت

ایک شخص نے عقد نکاح کے ضمن میں اپنی زوجہ کو وکالتِ بلاعزل نیز دوسرے کو وکیل بنانے کا حق دیا کہ جب بھی زوجہٴ اول کی رضایت کے بغیر دوسری شادی کرے گا، یا عدالت کی تشخیص کے بعد اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کی رعایت نہ کرے گا تو بیوی عدالت کی طرف رجوع اوراس سے مجوِّز لے کر، نوع طلاق کو منتخب کرنے کے بعد، اپنے آپ کو مطلقہ کرلے گی، اب اس کے ان اقرار جیسے: میں نے شادی کرلی، تشکیل زندگی دے لی، وغیرہ پر کچھ شاہد بھی شہادت دے رہے ہیں، اس کے علاوہ شوہر، قاضی تحقیق اور پولیس کے سامنے بھی ایسا ہی اقرار کرتا ہے ، اب بیوی نے اپنی وکالت کو استعمال کرنے کااذن طلب کیا ہے، شوہر اس اقرار کو قبول کرنے کے ساتھ کہتا ہے : حقیقت میں ، میں نے شادی نہیں کی تھی، بلکہ ان باتوں سے میرا مقصد بیوی کو تمکین کے اوپر اُکسانا تھا، کیا ایسے مورد میں قاضی کے سامنے اقرار کرنا لازم ہے، قاضی تحقیق کے سامنے اس کا اقرار کرنا یا اس کے اقرار پر شہادت ہی کافی ہے؟ کیا ایسے مورد میں مُقِر کو اقرار سے انکار کا حق ہے؟

جواب: شوہر کا اقرار، یا شوہر کے اقرار پر شاہدوں کی شہادت، قاضی کے عدم حضور میں بھی زوجہ کو اس مسئلہ میں طلاق کا حق دیتا ہے، مگر یہ کہ معتبر قرائن وشواہد موجود ہوں کہ شوہر کا قصد زوجہ کو تمکین کے اوپر اکسانا تھا ۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام

دھوکاد ھڑی اور زور ربردستی سے اقرار لینا

ایک شخص ایک پر جمعیت عمومی جگہ پر ، یا حکومت کے کارکنان کے کام کرنے کی جگہ پر ، بمب گذاری یا دہشت گردی کے عملیات کے جرم میں ملزِم ہے یا اغوا اور فساد فی الارض کے جرم میں ملوث ہے، جب بھی وہ شواہد وقرائن کہ جو قاضی کی فائل میں موجود ہیں، قاضی کے لئے علم آور ہوں، یا ملزم اقرار کرلے اور نتیجةً جرم ثابت ہوجائے، لیکن اس کے باوجود یہ مذکورہ شخص بمب گذاری کے نقشہ کے فاش کرنے ، زمان ومکان کے دقیقاً بتانے اور شرکاء کے نام لینے سے خودداری کرے ، کیا قاضی ،ملزِم سے ان مہم اطلاعات کو حاصل کرنے کے لئے اور دہشتگردی کے عملیات کا سدباب کرنے کے لئے کہ اگر یہ عملیات محقق ہوجائیں تو بہت زیادہ نقصان کا باعث بنیں گے، ان جیسے استدلال ”دفع افسد بہ فاسد“ افسد کو فاسد سے دفع کرنا، ”ترجیح اہم برمہم “ مہم پر اہم کو ترجیح دینا ”الضرورات تبیح المحذورات“ ضرورتیں، ممنوعہ کام کو مباح کردیتی ہیں، ”اوجب بودن حفظ نظام“ نظام کی حفاظت کرنا زیادہ واجب ہے، کے ذریعہ ملزِم کو شکنجہ کرنے کا حکم دے سکتا ہے تاکہ اس قضیہ کی فوریت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کم سے کم وقت میں اقرار کرلے؟ کیا ایسا اقرار حجت ہے؟

جواب: شکنجہ کرنا جائز نہیں ہے۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام

دھوکاد ھڑی اور زور ربردستی سے اقرار لینا

ایک شخص ایک پر جمعیت عمومی جگہ پر ، یا حکومت کے کارکنان کے کام کرنے کی جگہ پر ، بمب گذاری یا دہشت گردی کے عملیات کے جرم میں ملزِم ہے یا اغوا اور فساد فی الارض کے جرم میں ملوث ہے، جب بھی وہ شواہد وقرائن کہ جو قاضی کی فائل میں موجود ہیں، قاضی کے لئے علم آور ہوں، یا ملزم اقرار کرلے اور نتیجةً جرم ثابت ہوجائے، لیکن اس کے باوجود یہ مذکورہ شخص بمب گذاری کے نقشہ کے فاش کرنے ، زمان ومکان کے دقیقاً بتانے اور شرکاء کے نام لینے سے خودداری کرے ، کیا قاضی ،ملزِم سے ان مہم اطلاعات کو حاصل کرنے کے لئے اور دہشتگردی کے عملیات کا سدباب کرنے کے لئے کہ اگر یہ عملیات محقق ہوجائیں تو بہت زیادہ نقصان کا باعث بنیں گے، ان جیسے استدلال ”دفع افسد بہ فاسد“ افسد کو فاسد سے دفع کرنا، ”ترجیح اہم برمہم “ مہم پر اہم کو ترجیح دینا ”الضرورات تبیح المحذورات“ ضرورتیں، ممنوعہ کام کو مباح کردیتی ہیں، ”اوجب بودن حفظ نظام“ نظام کی حفاظت کرنا زیادہ واجب ہے، کے ذریعہ ملزِم کو شکنجہ کرنے کا حکم دے سکتا ہے تاکہ اس قضیہ کی فوریت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کم سے کم وقت میں اقرار کرلے؟ کیا ایسا اقرار حجت ہے؟

جواب: شکنجہ کرنا جائز نہیں ہے۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام

مقر کا غیر معین مقر لہ کے لیئے اقرار کا حکم

مردّد شخص کے لئے اقرا رکے آثار (نتائج) بیان فرمائیں:الف) کیا ایسا اقرار صحیح ہے؟ب) صحیح ہونے کی صورت میں مقرّلہ کا معین کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور یہ کیسے انجام پائے گا؟ج) اقرار کے معین ہونے کے بعد مقرّ یا مقرلہ یا مخاطبین کے درمیان اختلاف کی صورت میں کیا حکم ہے؟د) اگر کوئی اور شخص مقرّلہ ہونے کا ادعا کرے، اس کا ادّعا کیا اثر رکھتا ہے؟ کیا اس صورت میں مقرّلہ پر عنوان مدّعی، وطرف دیگر پر عنوان منکر صادق آتا ہے، نتیجةً کیا یہاں پر مخاصمہ (مقدمہ) کی صورت پیدا ہوجائے گی؟ھ) اگر مقرّلہ کے علاوہ مقرّبہ بھی مردّد ومبہم ہو، تو کیا نتیجہ نکلتا ہے؟و) اگر مقرّ، مقرّلہ کے معین کرنے سے خودداری کرے یالاعلمی کا اظہار کرے اور وہ دونو ں (یعنی مردّد اشخاص ) اس کی تصدیق کریں تو کیا تعیّن لازمی ہوجائے گا، یا یہاں پر کوئی اور حکم ہے؟ز) اگر مقرّ معین کرنے سے خودداری کرے یا لاعلمی کا اظہار کرے، وہ دونوں یا ان میں سے ایک مقرّ کے عالم ہونے کا ادعا کریں، کیاقسم کے ذریعہ مقرّ کا ادّعا قبول کیا جاسکتا ہے؟۔ح) کیا اقرار کے لئے مخاطبین کی تصدیق یا عدم تصدیق ، مقرّ کی لاعلمی کے اظہار کی بہ نسبت کوئی اثر رکھتی ہے؟

جواب: مبہم شخص کے لئے اقرار کرنا جائز ہے ، لیکن حاکم شرع ،مقرّ کو مُلزَم (مجبور) کرے گا کہ اپنے اقرار کے لئے مناسب تشریح بیان کرے، تشریح سے امتناع کی صورت میں حاکم شرع اس کو قید یا تعزیر کرسکتا ہے، بہرحال اس کے اقرار کی قدر متیقّن حجت ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کیا جاسکتا ہے، مگر قسم کے حکم کا اجراء ان جیسے موارد کے لئے مشکل ہے۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام

مقر کا غیر معین مقر لہ کے لیئے اقرار کا حکم

مردّد شخص کے لئے اقرا رکے آثار (نتائج) بیان فرمائیں:الف) کیا ایسا اقرار صحیح ہے؟ب) صحیح ہونے کی صورت میں مقرّلہ کا معین کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور یہ کیسے انجام پائے گا؟ج) اقرار کے معین ہونے کے بعد مقرّ یا مقرلہ یا مخاطبین کے درمیان اختلاف کی صورت میں کیا حکم ہے؟د) اگر کوئی اور شخص مقرّلہ ہونے کا ادعا کرے، اس کا ادّعا کیا اثر رکھتا ہے؟ کیا اس صورت میں مقرّلہ پر عنوان مدّعی، وطرف دیگر پر عنوان منکر صادق آتا ہے، نتیجةً کیا یہاں پر مخاصمہ (مقدمہ) کی صورت پیدا ہوجائے گی؟ھ) اگر مقرّلہ کے علاوہ مقرّبہ بھی مردّد ومبہم ہو، تو کیا نتیجہ نکلتا ہے؟و) اگر مقرّ، مقرّلہ کے معین کرنے سے خودداری کرے یالاعلمی کا اظہار کرے اور وہ دونو ں (یعنی مردّد اشخاص ) اس کی تصدیق کریں تو کیا تعیّن لازمی ہوجائے گا، یا یہاں پر کوئی اور حکم ہے؟ز) اگر مقرّ معین کرنے سے خودداری کرے یا لاعلمی کا اظہار کرے، وہ دونوں یا ان میں سے ایک مقرّ کے عالم ہونے کا ادعا کریں، کیاقسم کے ذریعہ مقرّ کا ادّعا قبول کیا جاسکتا ہے؟۔ح) کیا اقرار کے لئے مخاطبین کی تصدیق یا عدم تصدیق ، مقرّ کی لاعلمی کے اظہار کی بہ نسبت کوئی اثر رکھتی ہے؟

جواب: مبہم شخص کے لئے اقرار کرنا جائز ہے ، لیکن حاکم شرع ،مقرّ کو مُلزَم (مجبور) کرے گا کہ اپنے اقرار کے لئے مناسب تشریح بیان کرے، تشریح سے امتناع کی صورت میں حاکم شرع اس کو قید یا تعزیر کرسکتا ہے، بہرحال اس کے اقرار کی قدر متیقّن حجت ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کیا جاسکتا ہے، مگر قسم کے حکم کا اجراء ان جیسے موارد کے لئے مشکل ہے۔

دسته‌ها: اقرار کے احکام
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی