واقعی اور جدّی مطالب کو طنز کے قالب میں پیش کرنا
کیا واقعی اور جدّی مطالب کو لطیفے ، چٹکلے، طنز وغیرہ کی صورت میں پیش کرنا شرعاً جائز ہے؟
جب تک غلط باتوں سے خالی ہو اور اس میں معاشرے کے سدھارنے کی غرض ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
جب تک غلط باتوں سے خالی ہو اور اس میں معاشرے کے سدھارنے کی غرض ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
ان مسائل میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔
اس کی کوئی صحت نہیں ہے، لیکن کہتے ہیں: ”اسفند کی دھونی فضا کو بکٹیریا سے پاک وصاف کرتی ہے اور مفید ہے“۔
ہمارے علاوہ بہت سے مجتہدین نے بھی نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ عقل اس کی قباحت کا حکم کرتی ہے، اس کے علاوہ یہ آیہٴ کریمہ (بقرہ/۱۹۵) بھی ایسے لوگوں کو شامل ہے، بعض روایات بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ نقصاندہ اور مضر چیزوں کا استعمال کرنا حرام ہے ۔
ہاں وہ ایسا کر سکتے ہیں، قرآن مجید نے حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے صریحا اس بات کو بیان کیا ہے۔ (سورہ آل عمران آیہ ۴۹) اور یہ کام اللہ تعالی کی اذن اور اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے۔
رقی، صرف کسی فقہی عنوان کے تحت ہی کی جا سکتی ہے اور صرف ملک چھوڑ دینا یا فرار ہو جانا قرقی کا جواز نہیں بن سکتا بلکہ قرقی شرعی اعتبار سے ثابت ہونا چاہیے مثلا یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے سارا مال نا جایز طریقے سے ہتھیایا ہے اور مجہول المالک (جس مال کا مالک معلوم نہ ہو) کے حکم میں آ جائے۔
یہ چیز اسلامی تواریخ اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم اور معصومین علیہم السلام کی سیرت میں، دیکھنے میں آئی ہے ۔
اگر کفر اور گناہ سے محفوظ ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ”تعرّب بعد الہجرة“ کا مصداق نہیں ہے خصوصاً اس صورت میں کہ جب آہستہ آہستہ اپنے قول اور فعل سے وہاں پر اسلام کی تبلیغ کرسکتا ہو ۔
شہریہ سے مربوط مسائل کے لیے مراجع کرام کے دفتروں میں رجوع کریں اور ان کے حکم کے مطابق اس پر عمل کیا جائے، شہریہ کے مصرف کے لیے دفتر سے اجازت کا ہونا ضروری ہے۔
کوئی اشکال نہیں ہے؛ لیکن اس میں قرآن کی تلاوت کا ثواب نہیں ہے ۔
جواب:۔جب بھی مشورہ اور ضروری تحقیقات کرنے کے بعد مشکل حل نہ ہو پائے تو استخارہ کیا جاسکتا ہے
اگر جان بوجھ کر اور معلوم ہوتے ہوئے ایسا ہوا ہو تو مرتد ہوجائے گا اور دوسرے لوگوں پر نہی عن المنکر کرنا لازم ہے ۔