مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

کھیل کے مقابلوں میں چوٹیں لگنا

بہت سے کھیلوں میں بہت زیادہ چوٹیں لگ جاتی ہیں، اس طرح کے بہت سی جگہوں میں تو زخم تک لگ جاتے ہیں یا کھال نیلی یا سرخ ہوجاتی ہے، ان کھیلوں کا کیا حکم ہے؟

اگر اپنے ذاتی دفاع، یا ملک اور مسلمانوں کی عزت وآبرو کے لئے ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن کھلاڑی لوگ کھیل سے پہلے ایک دوسرے سے برائت حاصل کرلیں تاکہ ایک دوسرے کے ضامن نہ ہوں ۔

دسته‌ها: ورزش کے مقابلے

کھلاڑیوں کا غیر ملکی ٹیموں میں خدمت کرنا

ایک کھلاڑی بیت المال کے پیسے سے چیمپین بنا ہے اور اب غیرملکی ٹیموں نے اس کو بہت زیادہ پیسوں سے خریدلیا ہے، کیا یہ کام جائز ہے؟

اگر بیت المال کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ تھا تو اس پر عمل کرے اور اگر اس کا کوئی معاہدہ نہیں تھا تو وہ آزاد ہے؛ لیکن انصاف یہ ہے کہ اپنے ملک کے نفع میں کام کرے ۔

دسته‌ها: مختلف مسائل

پیشہ ورانہ کھیل کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ

اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ورزش نے آدھی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور کبھی کبھی یہ سیاست اور حکومت میں بڑا کردار ادا کرتی ہے نیز ہمارے ملک میں اخلاقی فساد سے مقابلہ کا بہترین ذریعہ شمار ہوتی ہے، گزارش ہے کہ درج ذیل سوالات کے سلسلے میں اپنی مبارک نظر بیان فرمائیں:۱۔ ورزش کے سلسلے میں مقدس شریعت کا کیا نظریہ ہے ؟۲۔ پیشہ ورانہ ورزش کے سلسلے میں اسلام کیا کہتا ہے؟۳۔ ایسے افراد کے سلسلے میں جو لوگ ورزش کو اپنا مستقل شغل قرار دیتے ہیں اور اسی سے درآمد کرتے ہیں، اسلام کا کیا نظریہ ہے؟۴۔ چیمپین شب والی ورزش کے متعلق اسلام کی کیا نظر ہے؟۵۔ عوض (وہ پیسہ جو ورزش کرنے والے کے لئے منظور ہوتا ہے) کے ساتھ ورزشی مقابلوں کا کیا حکم ہے؟۶۔ کیا مخصوص لباس کے ساتھ کھیلوں کا ٹی وی پر ڈائریکٹ دکھانا اور عورت ومردکا اُن کودیکھنا جائز ہے؟۷۔ کھلاڑیوں کا ہارجیت کی شرط لگانے یا کسی تیسرے شخص کے شرط لگانے کا کیا حکم ہے؟

ا سے ۷ تک: بیشک ورزش جسم وروح کی سلامتی کے لئے ضروری ہے اور اسلام میں بھی بامقصد ورزش کی تاکید ہوئی ہے (جیسے گھڑ سواری، تیراکی وغیرہ) لیکن شرط لگانے کی فقط گھڑ سواری اور تیراندازی میں اجازت دی گئی ہے، افسوس کہ آج ورزش اور کھیل کود جیسا کہ آپ نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، بہت سے موارد میں اپنے اصلی راستہ سے ہٹ گئے اور افراط وتفریط کی طرف مائل ہوگئے ہیں اور کبھی کبھی زرپرستوں کے تجارتی مسائل کا آلہ یا سیاست بازوں کا لقمہٴ تر بن جاتے ہیں، اگر یہی حال رہا تو ورزش کرنے والوں اور اس کے شائقین کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے،اُمید کرتا ہوں کہ ورزش اور کھیل کود کے اندیشمندان اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی روک تھام کے لئے کوئی راستہ تلاش کریں، اس کو اس کی اصلی جگہ دیں اور یہ بھی کہ ہمارے کچھ جوان ورزش کے انحرافات کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں اس کی بھی روک تھام ہونی چاہیے۔

دسته‌ها: مختلف مسائل

عورتوں کے کھیل کا شرعی حکم

مہربانی فرماکر عورتوں کے کھیل کے سلسلے میں نیچے دیئے گئے سوالوں کے جواب عنیات فرمائیں:۱۔ ابتدائی مدارس کی لڑکیوں کے لئے حجاب اسلامی کے بغیر ورزش کرنے کا کیا حکم ہے؟۲۔ عورتوں کا اسلامی حجاب کے ساتھ عمومی جگہوں پر جہاں ان کوسب دیکھ رہے ہوں، ورزش کرنے کا کیا حکم ہے؟۳۔ انفرادی اور ایسا کھیل جس میں ایک دوسرے کا بدن کونہیں چھُوایا جاتا ہے جیسے (ٹینس، بیڈ منٹن وغیرہ) عورتوں کا مردوں کے ساتھ کھیلنے کا کیا حکم ہے؟۴۔ کیا اس ہال کے اندر جو عورتوں کے کھیل سے مخصوص ہے عورتوں کا حجاب میں رہنا ضروری ہے؟۵۔ عورتوں کا پورے اسلامی پردے کے ساتھ سڑکوں اور عمومی راستوں پر سائیکل یا موٹر سائیکل چلانے کا کیا حکم ہے؟۶۔ کیا سن بلوغ سے پہلے لڑکے اور لڑکیوں کا آپس میں کھیلنا جائز ہے؟۷۔ مردوں کا عورتوں کے لئے کھیل کا مربّی (کوچ) بننا کس حد تک جائز ہے؟۸۔ نامحرم کی غیرموجودگی میں عورتوں کا کھیل میں اُچھل کود کرنا (کہ جس میں بدن کے حصّے حرکت میں آتے ہیں) کیسا ہے؟۹۔ عورتوں کا اپنے محرموں کے ساتھ کھیلنے کا کیا حکم ہے؟۱۰۔ عورتوں کا مردوں کے کھیل دیکھنے کی حد کہاں تک ہے؟

ایک سے ۱۰ تک: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ورزش ہر سنّ کے افراد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھے ہو ںیا جوان، کی صحت سلامتی وسلامتی کی حفاظت کے لئے بہت ضروری کاموں میں شمار ہوتی ہے، اس کے علاوہ ورزش صحیح وسالم سرگرمی کے لئے بہت سے خالی اوقات کو بھرسکتی ہے اور انسان کو غیر سالم سرگرمیوں سے باز رکھ سکتی ہے، لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ عورتوں اور مردوں کی شرعی پابندیوں کا خیال رکھا جائے، اور ورزشی مقابلہ اس چیز کے مجوّز نہیں سکتے ہیں ہم اپنی تہذیب اپنے کلچر کو چھوڑکر اغیار کی تہذیب کو اپنالیں، عام طور سے عورتیں ایسی جگہوں پر جو فقط عورتوں سے مخصوص ہیں مناسب لباس کے ساتھ پردے میں یا بغیر شرعی پردے کے، اس چیز کا خیال رکھتے ہوئے کہ جنس مخالف وہاں پر نہ ہو کھیل کود کرسکتی ہیں، ان کے مربّی اور ریفری بھی عورتوں میںسے چنے جائیں، جیسا کہ مردوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے اور انھیں اسے کھیل کھینا چاہیے جن سے ان کے جسموں کو نقصان نہ پہنچے ۔

دسته‌ها: عورتوں کی ورزش
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی