سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

محارم کے ساتھ زنا بالجبر کا حکم

ایک خاتون نے اپنی۲۰/سالہ بیٹی کے ساتھ آکر اپنے شوہر کے خلاف جو اس وقت قید میں ہے، اپنے دفاع کی خاطر مجھے وکالت دی ہے، اس کا شوہر ایک سخت مزاج اور گھر کے اندر ڈکٹیٹر اور مطلق العنان حاکم تھا ، نعوذبالله تقریباً ۸/سال تک اپنی بیٹی سے زنا کرتا رہا جس کا نتیجہ ایک بے گناہ بچی ہے جو اس و قت سات سال کی ہوچکی ہے!! آپ سے گزارش ہے کہ باپ اور اس کی بیٹی کے بارے میں جو باپ کے ظلم وزیادتی کی وجہ سے اس کے نامشروع مطالبات مانتی رہی ، شرعی حکم بیان فرماتے ہوئے اس بچی کی شرعی اور قانونی وضعیت کو بھی روشن فرمائیں۔

جواب: چنانچہ باپ کا جرم ثابت ہوجائے، اس کا حکم ۳ بار سزائے موت ہے؛ محارم کے ساتھ زنا کی وجہ سے، عنف (زبردستی) کی وجہ سے اور زناء محصنہ کی وجہ سے اور اگر بیٹی مجبور تھی تو حد نہیں رکھتی، لیکن اگر بیوی اس دعوے کو ثابت نہ کرپائے تو شوہر حدقذف کا تقاضا کرسکتا ہے، مذکورہ بچی باپ کی طرف سے نامشروع ہے لہٰذا اس کی وارث نہیں بن سکتی؛ لیکن اس کا نفقہ وخرچ اس (زانی) کے اوپر ہے۔

دسته‌ها: زنا کی حد

زنا میں احصان کے مستحق ہونے کے شرائط

کیا زانی ذیل کے موارد میں رجم کا مستحق ہے؟۱۔ احصان سے بچنے کے لئے سفر کیا اور زنا کا مرتکب ہوگیا۔۲۔ ایسے حالات میں زنا کا مرتکب ہوا ہے جبکہ بیوی یا شوہر بیماری کی وجہ سے جماع کی آمادگی نہیں رکھتے تھے، اگرچہ تمام دیگر لذتیں ممکن تھیں۔۳۔ زنا اس وقت واقع ہوا جب شوہر بیوی میں ناراضگی اور گھریلو اختلاف کی وجہ سے مجامعت ممکن نہیں تھی۔۴۔ زنا کا ارتکاب بیوی یا شوہر کے روزے کی حالت میں ہوا۔۵۔ عورت طلاق رجعی کی عدت میں زنا کی مرتکب ہوئی ہے (ملحوظ رہے کہ عورت کو رجوع کرنے کا حق نہیں ہوتا)۶۔ مرد اپنی بیوی کے ایام حیض یا نفاس میں زنا کا مرتکب ہوا ہے۔

جواب: تمام بالا صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی زناء محصنہ ثابت نہیں ہے، مگر روزے کے موارد میں ؛ کیونکہ روزہ کی ممنوعہ مقدار احصان پر ضرر انداز نہیں ہوتی، ہرچند کہ فقہاء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ طلاق رجعی کی عدت میں مرد اور عورت کی طرف سے زنا کرنا، زناء محصنہ شمار ہوتا ہے؛ لیکن ان کی دلیل قانع کنندہ نہیں ہے۔

دسته‌ها: زنا کی حد

اس عورت کے ساتھ عقد اور ہمبستری کرنا جو ۴/ سال سے شوہر سے دور تھی

ایک لڑکی ایک نابینا شخص کے عقد میں آتی ہے، شادی، مشترک زندگی اور شوہر کو تمکین دینے کے تقریباً ۴۵ روز بعد وہ لڑکی شوہر کو چھوڑکر چلی جاتی ہے اور دعوا کرتی ہے کہ اس آدمی نے اس کو دھوکا دیا ہے چونکہ اس نے اپنے بھائی کو جو بینائی کی نعمت سے کاملاً بہرہ مند ہے، عقد کے وقت شوہر کے عنوان سے پہچنوایا تھا! نیز یہ لڑکی ملک کی عدالت عامہ میں متعدد بار فسخ نکاح اور طلاق کا تقاضا کرچکی ہے، عدالت کے ایک کیس میں اس کی جانب سے فریب اور دھوکا دھڑی کے مقدمے کی پیروی ہوئی، لیکن عدالت نے دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کے درمیان دائمی زوجیت کے صحیح اور شرعی ہونے کا حکم صادر کردیا ہے اور اس کے طلاق کے مطالبہ کو بھی شوہر کے امتناع اور بہت سے اشکالات کی وجہ سے رد کردیا ہے۔زوجہ تقریباً ۴ سال کی مدت گذرجانے کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کرلیتی ہے اور زنا کی مرتکب ہوجاتی ہے، زانی میں بھی احصان کے شرائط موجود تھے ، انجام شدہ تحقیقات کے مطابق زانی شخص اس عورت (زانیہ) کے حالات سے باخبر تھا، کیا مذگورہ عورت غیر محصنہ ہونے کے لحاظ سے (شوہر سے ۴سال کی دوری البتہ اپنے اختیار سے) زناء غیر محصنہ کی حد کی مستحق ہے؟ کیا مرد کی مذکورہ وضعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ رجم کی حد کا مستحق ہوگا؟ یاشبہہ کا لحاظ رکھتے ہوئے رجم کی حد سے بری ہوجائے گا؟ کیا آخری صورت میں لگے کوڑوں کی سزا یا تعذیر اس کے اوپر جاری ہوگی؟

جواب: فرض مسئلہ میں ، عورت پر شوہر سے ایسی جدائی کی خاطر محصنہ ہونے کے احکام جاری نہیں ہونگے ، ایسے ہی مرد بھی چونکہ وہ عقد نکاح سے متمسک ہوا ہے اور یہ خود شبہہ کی دلیلوں میں سے ایک ہے، محصن ہونے کا حکم اس کو شامل نہیں ہوگا، لیکن دونوں مسئلہ کے حکم کے دریافت کرنے میں مقصر اور ممنوعہ عمل کے مرتکب ہونے کی وجہ سے تعذیر کے مستحق ہیں۔

دسته‌ها: زنا کی حد

زنا کی حد کے مورد میں قانون دفعہ ۶۶، اور ۶۳ کی وضاحت

اسلامی قانون کے دفعہ کے ۶۳ میں اس طرح آیا ہے : ”زنا عبار ت ہے مرد کا اس عورت کے ساتھ جماع کرنا جو اس پر ذاتاً حرام ہے“ کبھی کبھی اس جملے سے یہ استفادہ ہوتا ہے: چنانچہ عورت اور مرد کے درمیان ازدواجی تعلقات ذاتاً حرام نہ ہوں تو یہ زنا حرمت نہیں رکھتا اور جب حرمت نہیں ہوگی تو سنگسار یاکوڑے لگانا ان کے شامل حال نہیں ہوگا“ اسی قانون کی دفعہ ۶۶ میں اس طرح آیا ہے: ”جب کوئی عورت اور مرد مجامعت کے بعد ناآگاہی اور اشتباہ کا دعوا کریں اور مدعی کے سچا ہونے کا احتمال دیا جاسکے، اس صورت میں مذکورہ دعویٰ بغیر قسم کے قبول اور حد ساقط ہوجائے گی“ آخری جملوں کا مفہوم مخالف یہ ہوگا ”اس صورت میں جب مدعی کی سچائی کا احتمال نہ دیا جاسکے، مدعی اس بات پر قسم کھاکر کہ وہ بھول اور لا علمی کا شکار ہوا ہے، اپنے آپ کو حد کے اجرا سے نجات دے سکتا ہے“ کیا وہ ”کلمات جو مادّہ اخیر میں آئے جیسے“ اشتباہ وناآگاہی“ ان کلمات سے اشتباہ حکمی اور اشتباہ موضوعی دونوں مراد ہیں یا فقط اشتباہ موضوعی مقصود ہے؟ بقیہ مذکورہ موارد کو بھی واضح فرمائیں۔

جواب: ”ذاتاً حرام ہے“ اس جملے سے مقصود اس مورد کو خارج کرنا ہے جو بالعرض حرام ہو، مثلاً عورت حیض کی حالت میں، یا رمضان المبارک کے دنوں میں حرام ہوجاتی ہے، یہ حرمت ذاتی نہیں ہے، لہٰذا اس کے ساتھ ہمبستری زنا میں شمار نہیں ہوگی؛ لیکن اگر آپس میں عقد نکاح نہ پڑھا ہو تو ذاتاً حرام ہے لیکن ”بغیر شاہد اور قسم․․․“ کے جملے سے منظور ، اشتباہ کا دعویٰ کافی ہے اور اس کو قسم پر آمادہ کرنا لازم نہیں ہے اور اگر صدق کا احتمال موجود نہ ہو تو قسم بے فائدہ ہے، اشتباہ اور غلطی کا دعویٰ چاہے حکم کے اعتبار سے ہو یا موضوع کی حیثیت سے برابر ہے۔

دسته‌ها: زنا کی حد

نامشروع روابط کے ثابت کرنے میں قاضی کا علم

جیساکہ روایات اور احادیث معصومین سے استفادہ ہوتا ہے کہ شارع مقدس مرداور عورت کے درمیان نامشروع روابط میں عورت اور مرد کی رسوائی اور اس رابطہ کو افشا کرنے پر راضی نہیں ہے لہٰذا عفت کے منافی اعمال کا اثبات چار بار اقرا ریا چار شاہد عادل کی گواہی پر قرار دیا ہے؛ اس وجہ سے بعض محکمے اس جیسے جرائم میں تفتیش اور اثبات جرم پر بنا نہیں رکھتے حاکموں کا کیا وظیفہ ہے؟ جبکہ خصوصی شاکی (شکایت کرنے والا) بھی درمیان میں موجود ہو، کیا اس طرح کے موارد میں قاضی پر اپنے علم کے مطابق عمل کرنا واجب ہے، یا ممکن ہے اپنے علم پر عمل نہ کرے؟

جواب: شاکی کو عدالت میں شکایت کرنے کا حق ہے ، چنانچہ اپنے دعوے کو شرعی دلیل سے ثابت کرسکتا ہوتو حاکم ، مقدس شریعت کے قوانین کے مطابق اپنے وظیفہ پر عمل کرے اور قاضی اس جیسے موارد میں شاکی کے حق کوثابت کرنے کی خاطر لازمی تحقیقات انجام دے اور چنانچہ مقدمات حسی یا حس کے قریب مقدمات سے اس کو علم ہوجائے، اس کا علم حجت ہے۔

دسته‌ها: زنا کی حد

گواہوں کی گواہی سے پہلے زنا بالجبر کرنے والے کا توبہ کرنا

اسلامی تعزیرات کے قانون میں آیا ہے کہ: ”اگر زانی اور زانیہ شہود کے گواہی دینے سے پہلے، توبہ کرلیں، ان پر حد جاری نہیں ہوگی، کیا یہ تخفیف زناء عنف (بالجبر) کو بھی شامل ہوگی؟

جواب: حد، جو الله کا حق ہے، گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کے ذریعہ ساقط ہوجاتی ہے؛ لیکن حق الناس ، جیسے زناء عنف کے بدلے مہرالمثل کا ادا کرنا، توبہ سے ساقط نہیں ہوتا۔

دسته‌ها: زنا کی حد
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی