سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

نماز کی قرائت میں وقف کا معیار

مہربانی فرماکر نماز کی قرائت کے سلسلے میں ذیل میں مندرج، سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں:۱۔نماز کی قرائت کی بحث میں وقف کے کیا معنی ہیں؟ آیا معیار سانس توڑنا ہے، چاہے وقف نہ بھی ہو؟ یا معیار عرفی وقف ہے (وہ وقف جس کو عام لوگ وقف کہتے ہیں) چاہے سانس نہ بھی توڑا جائے؟۲۔ کیا نماز کے کلمات میں سے ہر کلمہ پر وقف کیا جاسکتا ہے؟ یا معیار معنا کا صحیح ہونا ہے؟ مثلاً اگر ”الحمدللّٰہ“ کہے اس کے تھوڑی دیر بعد ”رب العالمین“ کہا جائے، کیا اس کی نماز صحیح ہے؟۳۔کیا نماز کے تمام اجزاء میں حرکات پر وقف کرنا نماز میں اشکال کا باعث ہوتا ہے؟ یا فقط اس چیز کا، قرائت میں اشکال ہے؟ مثلاً اگر کہے ”سبحان ربی العظیم “ (میم پر حرکت کے ساتھ) اس کے تھوڑی بعد کہے ”وبحمدہ“ کیا یہ وقف بہ حرکت شمار ہوگا؟۴۔ اُ ن اذکار کا نیچے نیچی دی گئی صورتوں میں پڑھنا جو کامل طور سے ایک دوسرے سے جدا ہیں، صحیح ہے؟الف) مثلاً ”سبحان الله“ بغیر وقف کے تین مرتبہ کہنا(الله کی حرکت کے ساتھ) ۔ب) ”سبحان الله“ کا وقف کے ساتھ اور (الله کی حرکت کے ساتھ) کہنا ۔

ا،اور ۲: وقف کا معیار عرفی ہے؛ چاہے سانس توڑے یا نہ توڑے، اور فقط اس جگہ جائز ہے جہاں جملہ کا رباطہ قطع نہ ہو۔کوئی فرق نہیں ہے ۔وقف بہ حرکت نماز کے ہر جزء میں خلاف احتیاط ہے ۔

دسته‌ها: قرائت

غیر مشہور قرائت کے مطابق نماز میں قرائت کرنا

کیا قرآن کی تمام قرائتوں کے مطابق ، نماز میں قرائت کی جاسکتی ہے ؟

جواب:۔ اگر مسلمانوں کے درمیان وہ قرائت مشہور ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن چونکہ ہمارے زمانے میں ، حفص کی روایت کے مطابق ، عاصم کی قرائت مشہور ہے ، جو عام قرآنی نسخوں میں پائی جاتی ہے ، دیگر قرائتیں ، اشکال سے خالی نہیں ہیں۔

دسته‌ها: قرائت

قرائت اور اذکار نماز میں قصد انشاء کرنا

کیا سورہٴ حمد اور نماز کے تمام اذکار میں انشاء کا قصد کرنا جائز ہے؟

اذکار، نماز، اور قرائت حمد وغیرہ کے معنی کا سمجھنا اور قصد انشاء کرنا نہ فقط جائز بلکہ بہت اچّھا ہے اور یہاں پر چند نکتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:۱۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ان الفاظ کا مقصد ان کے معانی ہیں، تسبیح وتحلیل وحمد وتعریف کا ہدف خدا ہے اور یہ مطلب بغیر معنی کے قصد کے الفاظ کے قصد سے حاصل نہیں ہوسکتا ، یہاں تک کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق سورہٴ حمد بھی ایسا ہی ہے، آیات اور تعبیرات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ پروردگار کے سامنے بندہ کی زبان سے ہیں اور یہ فکر کہ ان میں قصد انشاء کرنا قصد قراٴنیت کے منافی ہیں، ایک بڑی غلطی ہے کہ جس سے خدا سے پناہ مانگنی چاہیے؛ کیونکہ یہ سورہٴ حمد کے مقصد کو بالکل ختم کردیتا ہے خصوصاً ان روایات کو ملاحظہ کرنے کے بعد جو سورہٴ حمد کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔۲۔ کوئی شک نہیں ہے کہ سورہٴ توحید یا دوسرے وہ سورے جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں اس امر سے جدا ہیں اور خداوندعالم کے کلمات کی حکایت، پند ونصیحت اور تعلیم کے لئے ہیں (مثلاً کوئی بھی ”قل ھو الله احد“ میں قصد انشاء نہیں کرتا ہے) ۔۳۔ معنا کا قصد کرنا کہ کبھی تفصیلی ہے (جیسے خواص کا قصد) اور کبھی اجمالی ہے (جیسے وہ قصد جو عوام کرتے ہیں) عوام جانتے ہیں کہ یہ کلمات، حمد وتسبیح وتمجید وثناء ودعا ہیں؛ لیکن ان کی جزئیات کو نہیں جانتے ہیں ۔۴۔ حق یہ ہے کہ اجمالی قصد کافی نہیں ہے اور عوام پر ضروری نہیں ہے کہ نماز کے معانی کو بطور تفصیل سمجھیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں عرب زبانوں کے علاوہ بہت زیادہ قومیں اسلام میں داخل ہوئی ہیں جو عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں بات کرتی ہیں، اگر قرائت نماز کے اذکار وقرائت کے معانی کا تفصیل کے ساتھ جاننا واجب ہوتا تو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ علیہم السلام کی روایات میں اس کی طرف اشارہ ہوتا ، خصوصاً بہت آئمہ علیہم السلام تو اس کا ذکر کرتے ہی جیسے امام رضا علیہ السلام کہ جنھوں نے ایک مدت ایرانیوں کے ساتھ زندگی گذاری ہے ۔

دسته‌ها: قرائت

اذان میں شہادت ثالثہ کہنا(اذان میں اشہد ان علیا ولی اللہ کہنا)

شیعہ معاشرے میں امیر المومنین مولای متقیان حضرت علی بن ابی طالب ( علیہ الآف التحیة و الثناء) کی ولایت کی شہادت ، یعنی اذان میں ، اشہد ان علی ولی اللہ ، کہنا ، کس زمانے سے شروع ہوا ہے ؟

جواب :۔ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ عمل ائمہ علیہم السلام کے زمانے سے شروع ہوا ہے ، لیکن اس زمانے میں ، عام نہیں تھا ، اس کے بعد شیعیت کا شعار اور پہچان بن گیا، ( مزید وضاحت کے لئے ، نفیس کتاب” مستمسک“ میں اذان و اقامت کی بحث ملاحظہ فرمائیں )۔

اذان کے جزء کی نیت سے اشہد ان علیا ولی اللہ کہنا

کیا ”اشہد انّ علیاً ولی اللہ “کااذان میں کہنا بدعت ہے ؟

جواب:۔ بدعت وقت ہے جب اذان کے جزء کے قصد سے کہے، اور اگر اس مقصد سے نہ ہوتو بدعت نہیں اور کوئی حرج بھی نہیں ہے اور شیعہ حضرات اس قصد سے نہیں کہتے ہیں ۔

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت