سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

وحدت وجود کا مفہوم و مطلب

وحدت وجود کا کیا مطلب ہے اور اس پر اعتقاد رکھنے والوں کا کیا حکم ہے؟

جواب: وحدت وجود کے متعدد معنی ہیں ، وہ معنی کہ جو قطعی طور پر باطل ہے اور سب فقہاء کی نظر میں اسلام سے خارج ہونے کا سبب بنتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی معتقد ہو کہ خداوند ،اس دنیا کی عین موجودات ہے (یعنی خدا الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ یہ موجودات ہی خدا ہیں)اور خالق و مخلوق ، عابد و معبود وجود نہیں رکھتے اسی طرح جنت اور دوزخ بھی اس کے عین وجود ہیں ، اس کا لازمہ بہت سے مسلمات دین سے انکار کا سبب بنتا ہے ، جب بھی کوئی ان لوازم کا ملتزم و معتقد ہوجائے تو اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور دور حاضر کے اکثر فقہاء ، چاہے زندہ ہوں یا فوت کر گئے ہوں (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) نے اس موضوع کو قبول کیا ہے ، اور عروہ کے حاشیہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

وحدت وجود کے متعلق، شیعہ علماء اور بزرگوں کا عقیدہ

برای مہربانی وحدت وجود کے بارہ میں زیادہ وضاحت فرمائیں۔

جواب: اس کی وضاحت یہ ہے کہ وحدت وجود کبھی مفہوم وجود کی وحدت(وجود کے ایک ہونے)کے معنی میں ہے کہ جواشکال نہیں رکھتا اور کبھی وحدت حقیقت(حقیقت کے ایک ہونے) کے معنی میں ہے جیسے سورج کی روشنی اور چراغ کی روشنی کہ دونوں کی حقیقت ایک ہے لیکن مصداق متعددہیں اس میں بھی اشکال نہیں ہے اور کبھی وحدت وجود ، مصداق وجودکی وحدت(یعنی صرف وجود کا مصداق ایک ہے) کے معنی میں ہے اس معنا میں کہ عالم ہستی میں خدا کے وجود کے علاوہ کچھ اورنہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ اس کی عین ذات ہے یہ نظریہ کفر کا مستلزم ہے اور کسی ایک فقیہ نے بھی اس کو قبول نہیں کیا۔

وحدت وجود کے باطل ہونے پر دستاویز اور سند

بہت سے بزرگ افراد وحدت وجود کے معتقد ہیں، کیا اس مساٴلہ کے مطابق احتیاطاً ان برزگوں سے پرہیز کیا جائے؟

ان بزرگوں میں سے کوئی ایک بھی وحدت وجود کے جو مذکورہ بالا جواب میں تیسرے معنی بیان ہوئے ہیں، قائل نہیں ہیں اور جو کوئی بھی ان بزرگوںکی طرف ایسی نسبت دیتا ہے وہ جسارت کرتا ہے۔

تحقیق کے بعد اسلام کے بجائے کسی دوسرے دین کا انتخاب

آپ کی توضیح المسائل کے شروع میں آیا ہے” اصول دین میں مسلمانوں کا عقیدہ دلیل و برہان کے ذریعہ ہونا چاہیئے“ اگر کوئی مسلمان تحقیق کرنے کے بعد اسلام کے بجائے کسی دوسرے دین کو اختیار کرلیتا ہے تووہ مسلمان کیا اس دین کی پیروی کرسکتا ہے ؟ اس صورت میں اس مسلمان پر کیا مرتد کا حکم جاری نہیںہوگا ؟ اوراگر جاری ہوگا تو کیوں؟ آیایہ مرتد کا حکم اصول دین میںتحقیق کرنے اور اس میں کسی کی تقلید نہ کرنے سے نا سازگار نہیں ہے؟ ۔نیزجس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اگر اپنے ماں باپ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا تووہ شخص قتل کردیاجائے گا ایسے میں یہ شخص اصول دین میں آزادانہ طور پر تحقیق کیسے کرسکتا ہے ؟

جواب : دین کی تحقیق اور کسی مذہب کے عقیدہ کا اظہار یہ دو الگ چیزیں ہیں،اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ سب انسانوںپر ضروری ہے کہ اصول دین کی تحقیق اپنی توانائی بھر کرے اور اگر کسی انسان نے حقیقت میں اپنی کامل تحقیقات اور اہل علم سے پوچھ تاچھ کے بعد اسلام کے بجائے کسی دوسرے دین کو اختیار کرلیا ہے تو ایسا شخص معذور ہے کیونکہ اس نے شرعی و عقلی فریضہ کو پورا کردیا ہے اگرچہ اس نے خطا کی ہے ، لیکن جو شخص پہلے مسلمان تھا کسی وجہ سے دوسرے مذہب کو اختیار اور اس کا اظہار بھی کرنے لگا تو ایسا شخص مرتد کے حکم میں ہوگا حقیقت میں یہ مرتد کا حکم اسلام کا سیاسی حکم ہے تاکہ دشمن مسلمانوں کو فریب اور اسلامی ماحول میں نفوذ نہ کرنے پائے ۔

دسته‌ها: مرتد

کافر کی قسمیں

کافر کی رائج تقسیم، کافر حربی اور کافر ذمّی، جس میں کافر غیر ذمّی کو حربی جانتے ہیں، کے مطابق، کیا اس پر ذمّی کے تمام احکام جاری کئے جاسکتے ہیں تاکہ جو کفار اسلامی جمہوریہ ایران میں رہتے ہیں وہ کافر ذمّی اور باقی کفّار خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہوں، کافر حربی سمجھے جائیں، اور کافر حربی سے مخصوص تمام اقدامات، ان کے بارے میں کیا جانا جائز ہوجائے یا نہیں بلکہ کافر حربی مخصوص ہے اس حالت سے جب وہ جنگ کی حالت میں ہوں اور حالت جنگ کے علاوہ، کفار کی تیسری قسم ہوتی ہے جو نہ ذمّی ہوتے ہیں اور نہ حربی، نیز کیا ان کفار کی جان، مال اور عزّت وآبرو محترم ہے جو حالت جنگ میں نہیں ہیں؟

کافر کی تیسری اور چوتھی قسم بھی ہے، اس کی تیسری قسم ”کافر معاہد“ ہے، دور حاضر کے وہ بہت سے ممالک ، جن سے ہمارے سیاسی تعلقات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، اس (تیسری قسم) کا مصداق شمار ہوتے ہیں اور جب تک کسی طرح سے بھی وہ ممالک، مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں داخل نہ ہوں، اُن کی تمام چیزیں، جان اور ان کا مال، محترم ہے، اس لئے کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کے قوانین کے اعتبا رسے ان کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات ہوگئے ہیں، اس وجہ سے وہ سب، تیسری قسم یعنی ”کافر معاہد“ کے دائرے میں شمار ہوں گے، نیز توجہ رہے کہ کافر معاہد کا وقت محدود نہیں ہوتا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، ہماری نظر میں ایسا نہیں ہے اور کافر معاہد ، اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں کافروں کو شامل ہے (یعنی کافر کی تیسری قسم (کافر معاہد) میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں) اور قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ اہل کتاب کو اس وقت کافر ذمّی کا عنوان دیا جائے گا جب وہ اسلامی ممالک کے اندر زندگی بسر کرتے ہوں، لہٰذا جو اہل کتاب کفار اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہیں وہ فقط ”کافر معاہد“ ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں کافر ذمّی کے معاہدہ کا کوئی مطلب نہیں ہے (مگر یہ کہ کوئی کافر نشین ملک خود کو اسلامی ممالک کی پناہ میں دیدے) اس لئے کہ کافر ذمّی کے احکام میں بہت سے ایسے قرینہ موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ احکام، اسلامی ممالک کے اندر رہنے والے، اقلّیتی مذہب والوں سے متعلق ہیں ۔چوتھی قسم، وہ کفار ہیں جو نہ کفار ذمّی کا حصّہ ہیں نہ کافر معاہد اور نہ کفار حربی میں شامل ہیں، حقیقت میں وہ مسلمانوں کے لحاظ سے بالکل بے طرف اور غیرجانبدار ہیں، ان کو غیر حانبدار کا نام دیا جاسکتا ہے، قرآن مجید کی دو آیتوں میں ان کی وضعیت اور صورتحال کی طرف اشارہ ہوا ہے ، سورہٴ ممتحنہ کی آیت ۸ میں ارشاد ہوتا ہے: اور سورہٴ نساء کی آیت ۹۰ میں کفار کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: لہٰذا اس بناپر ”القای سلم“ سے مراد، مسالمت آمیز راستہ ہے، معاہدہ صلح نہیں، اس لئے کہ القای سلم کی عبارت، ان ہی معنی سے مناسب ہے اور بعد کی آیت بھی اسی آیت پر شاہد ہے، بہرحال غیرجانبدار کافر کی جان، مال، عزّت آبرو بھی محترم اور محفوظ ہے، اور کفار کی چار قسموں کے متعلق اس سے زیادہ وضاحت کرنے کے لئے، نسبتاً تفصیلی بحث کی ضرورت ہے (جس کا یہاں پر موقع نہیں ہے

دسته‌ها: کافر

ایران میں مقیم بہائی مذہب کے ماننے والے

اسلامی جمہوریہ ایران میں مقیم،بہت سے بہائی مذہب کے لوگ، اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایران کے عام قانون کے پابند ہیں اور ہم نے کسی طرح کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے لیکن پھر بھی ہمارے حقوق، ضائع ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اصولاً کیا بہائی مذہب خصوصاً ایران میں مقیم بہائی مذہب والے، اہل ذمہ میں شمار ہوں گے؟

ہم جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں، بہائی گری، فقط ایک مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زیادہ تر سیاسی حیثیت کا حامل ہے اور بہت زیادہ قرائن وشواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ غیروں اور دیگر ممالک کے فائدے کے لئے کام کرتے ہیں، بعض مغبی ممالک کے پارلیمنٹ کی طرف سے شدّت سے، ان کا دفاع کرنا، منجملہ ایک قرینہ اور شاہد ہے ، لہٰذا ان حالات میں ان کو ایک ایسے گروہ کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا جو مسالمت آمیز زندگی کا خواہاں ہو،حقیقت میں یہ لوگ محارب ہیں، (یعنی کافر حربی اور حالت جنگ میں ہیں

دسته‌ها: بہائی

وہ مسلمان جو پیغمبر اکرم کو برا کہے

ایک مسلمان آدمی، غصّہ کی حالت میں بار بار، رسول اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلم وائمہ طاہرین علیہم السلام کی توہین کرتا ہے حالانکہ بزعم وخیال خود، حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام پر اعتقاد اور ان سے عشق کا دعویدار ہے، اس صورت میں، اس کے بارے میں اس کی زوجہ، بچے اور رشتہ داروں کا کیا وظیفہ ہے؟

اگر یہ حالت، اس کی عادی حالت ہے (یعنی اس کی عادت ہوگئی ہے) تب وہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، لہٰذا اس کی زوجہ کے لئے اس سے جدا رہنا ضروری ہے، لیکن اگر وہ طبیعی حالت سے خارج ہوجاتا ہے، یا مشکوک ہے کہ طبیعی حالت سے خارج ہوا ہے یا نہیں (مثلاً دیوانگی اس پر طاری ہوئی ہے یا نہیں) تب اس صورت میں اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگے گا نیز پہلی صورت میں اگر وہ شخص توبہ کرلے اور اس عورت سے دوبارہ نکاح کرلے تو وہ عقد صحیح ہے ۔

دسته‌ها: مرتد
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی