مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

ایسی بات کہنا جس کے جھوٹ کا احتمال ہو

چھوٹ گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اگر انسان کو کسی بات کے صحیح ہونے کا زیادہ احتمال ہو تو کیا وہ اسے بیان کر سکتا ہے مثلا ۵۰ فی صد سے زیادہ، خاص طور پر ان موارد میں آپ کی بات پکڑنے والے حاضر ہوں مثلا استاد شاگرد سے کوئی سوال پوچھے اور شاگرد ۵۰ فی صد سے زیادہ احتمال دے تو کیا وہ یقین سے بیان کر سکتا ہے؟

جب تک انسان کو کسی بات کا یقین نہ ہو اسے قطعیت کے ساتھ بیان نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے احتمال کے ساتھ بیان کرنا چاہیے مگر یہ کہ اس کی بات پر قرینہ موجود ہو جو اس کے احتمال پر دلالت رکھتا ہو اور امتحان میں جس جواب کے صحیح ہونے کا قوی احتمال دے اسے لکھ سکتا ہے۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا

توریہ کا مطلب

توریہ کسے کہتے ہیں؟ برائے مہربانی مثال دے کر وضاحت فرمائیں کیا توریہ، ضرورت کے وقت سے مخصوص ہوتا ہے یا غیر ضروری مواقعہ پر بھی جائز ہے؟

توریہ، یہ ہے کہ آدمی دو پہلو بات کرے، اس بات سے اس کی مراد کوئی اور چیز ہو لیکن مخاطب کچھ اور سمجھے جیسے کوئی کسی کے دروازے پر جاکر سوال کرے کہ: فلاں صاحب گھر پر ہیں؟ اور اندر سے جواب دینے والا شخص اس کے جواب میں کہے، یہاں پر نہیں ہیں اور ”یہاں“ سے اس کی مراد ، دروازے کے پیچھے کی جگہ ہو، لیکن سننے والا شخص خیال کرے کہ فلاں شخص گھر میں نہیں ہے، نیز اس قسم کے توریہ میں، حالت ضرورت کی شرط نہیں ہے؛ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ حالت ضرورت کی مراعات کی جائے ۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا

اسلامی نظام کی مصلحت کا خاطر خبرنگار کا جھوٹ بولنا

امام خمینی رحمة الله علیہ فرماتے تھے: ”کبھی کبھی نظام کی حفاظت کے لئے بعض واجبات کو بھی ترک کیا جاسکتا ہے“ کیا یہ موضوع خبر کے سلسلے میں بھی صادق ہے؟ کیا خبر نگار بھی نظام کی حفاظت میں جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے؟

اگر واقعاً کوئی مسئلہ اہم اور مہم کی صورت اختیار کرلے اور جھوٹ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے مانند ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن چونکہ ممکن ہے کہ یہ حکم سوء استفادہ کا ذریعہ بن جائے اور خبرنگار کسی نہ کسی بہانے سے جھوٹی خبروں کو منتشر کریں، لہٰذا حتی الامکان اس کام سے پرہیز کیا جائے ۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا

جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا

الف۔ کیا کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ب۔ آیا کافر ذمی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟ج۔ ایسی جگہ پر جہان انسان کے جھوٹ بولنے سے اس کی، کسی اور کی یا چند مسلمانوں کی جان بچ سکتی ہو، اس کا کیا فریضہ ہے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور کسی کی جان خطرہ میں پڑ جانے کی صورت میں (اس شخص کے جھوٹ کے سبب) اور اس کے تلف ہو جانے کی حالت میں دیت کس کے ذمہ ہوگی؟

جواب: الف۔ نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ واجب ہے ۔ب۔ کوئی قباحت نہیں ہے ۔ج۔ کسی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اپنی یا کسی دوسرے کی جان بچانے کی خاطر اپنی یا کسی اور کی جان خطرہ میں ڈالنا ضروری نہیں ہے اور اگر اس کی وجہ سے کسی جان خطرہ میں پڑی ہے تو وہ ضامن ہے ۔

دسته‌ها: جهوٹ بولنا
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی