نواب اربعہ کی سیادت
من طلبنی وجدنی و من وجدنی عرفنی و من عرفنی عشقنی و من عشقنی عشقتہ و من عشقتہ قتلتہ فعلی دیتہ و من علی دیتہ فانا دیتہ، یہ حدیث ہے یا عرفاء کا قول ہے؟ یہ صحیح ہے یا نہیں؟
ہماری مشہور کتابوں میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
ہماری مشہور کتابوں میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
مسجد جمکران کا واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا تھا اور اس کی روایات مشہور کتابوں مین نقل ہوئیں ہیں، ہمارے بزرگ علماء اس مسجد کی نہایت اہمیت کے قائل ہیں۔
خواب دیکھتے وقت انسانی روح وقتی طور پر اس سے جدا ہوجاتی ہے، موت کے وقت یہ رابطہ مکمل طریقہ سے قطع ہو جاتا ہے اور اس بات کے مد نظر کہ خواب بہت مختلف طرح کے ہوتے ہیں انسان کا کسی دوسرے انسان کو خواب مین دیکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس نے اس کی روح سے ملاقات کی ہے۔
امتحان میں نقل کرنا جایز نہیں ہے، اب چاہے وہ جگہ بیت المال سے چلتی ہو یا کسی اور مال سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ نقل کرنے کا نقصان خود نقل کرنے والے کو ہوتا ہے۔ اگر نمبر کا امتحان میں کوئی اثر نہ ہو تو اس مین نقل کرنا حرام نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ میں نے لکھا ہے تو چھوٹ کا مرتکم ہوا ہے جو کہ حرام ہے۔
اگر دینی اور حوزوی علوم کے حصول کی راہ میں وہ مانع نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
فقہ کے استاد کا ہاتھ چومنا جایز بلکہ مستحب ہے۔ بوسہ دینے والی روایات جا ذکر درج ذیل کتابوں میں ہے، مطالعہ کریں: بحار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۳۷ حدیث ۳۴ سے آخر تک، وسائل الشیعہ باب ۱۳۳، مستدرک الوسائل ابواب العشرہ باب ۱۱۶۔
ان امور مین والدین کی رضایت ضروری نہیں ہے، ان کی اطاعت ان موارد میں واجب ہے جہاں ان کی عدم اطاعت ان کے ازار و ازیت کا سبب ہو۔ ایسے مسائل جو انسان کی زندگی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسے نکاح و طلاق، ان میں بھی ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح سے علم دین کے حصول کے لیے، جو عصر حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے، والدین کی رضایت شرط نہیں ہے، اسی طرح سے علماء کے لباس پہننے کا بھی یہی حکم ہے مگر بہتر یہ ہے کہ تمام کاموں میں ان مرضی کو شامل کیا جائے۔
اسرائیل کی غاصب حکومت کو کسی بھی طرح سے تقویت پہچانا حرام ہے۔
دلیل ظنی معتبر کو امارہ کہتے ہیں۔ جیسے عادل گواہ کی گواہی، کبھی کبھی دلیل قطعی کو بھی امارات قطعی کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلا شراب جب تک شراب ہے نجس اور حرام ہے مگر جب وہ سرکہ بن گئی تو پاک اور حلال ہو گئی۔ اسی طرح سے دوسرے تمام شرعی احکام ان کے موضوعات کے تابع ہوتے ہیں، موضوعات کے بدلنے کے ساتھ ہی ممکن ہے احکام بدل جائیں۔
اس کے معنا یہ ہیں کہ اسان جان بوچھ کر خود کو ضرر اور نقصان ہچانے کے لیے کوئی کام انجام دے۔ مثلا وہ جانتا ہے کہ اس چیز کی قیمت ہزار روپیے نہیں ہے مگر کسی لحاظ میں اسے ہزار روپیے میں خرید لے۔
عام طور پر دونوں ایک ہی معبا میں استعمال ہوتے ہیں، ہاں کبھی کبھی لازم ایک وسیع مفہوم مین استعمال ہوتا ہے اور اس کا اطلاق احکام تکلیفی کے علاوہ پر بھی ہوتا ہے۔
ختم سورہ انعام کا یہ جو طریقہ رایج ہے اس بارے میں کوئی مستند حدیث نظر سے نہیں گزری، اگر چہ بعض کتب مین اس کی اشارہ کیا گیا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں ہے کہ اس مبارک سورہ کی تلاوت اور اس پر عمل بہت سء مشکلات کے حل کا سبب بن سکتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ سورہ کی تلاوت کے وقت ان میں کسی چیز کا اضافہ نہ کیا جائے۔ ہاں جب تلاوت ختم ہو جائے تو دعائیں اور مرثیہ پڑھے جائیں۔
کوئی بھی معتبر دلیل مذکورہ فوٹو اور دیگر تمام اءمہ کے فوٹو کے بارے میں موجود نہیں ہے۔
فقہاء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ وہ فقہ کے ابواب کو تین سے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:الف: عبادات ب؛ معاملات ج: عقود و ایقاعات د: سیاسیاتمرحوم محقق صاحب شرایع الاسلام نے اسے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے: عبادات (دس کتابیں) عقود (پندرہ کتابیں) ایقاعات (گیارہ کتابیں) احکام (بارہ کتابیں(