نسبندی کے لیے عورت و مرد میں اولویت
اگر نس بندی کرانے کا حکم دے دیا جائے تو عورت و مرد میں سے کون اس امر میں مقدم ہوگا؟
جواب: اگر دونوں کے لیے حالات ایک سے ہوں تو بعید نہیں ہے کہ مرد اس کے لیے مقدم ہو۔
جواب: اگر دونوں کے لیے حالات ایک سے ہوں تو بعید نہیں ہے کہ مرد اس کے لیے مقدم ہو۔
جواب: اگر کسی بڑے ضرر یا خطرے کا خوف ہو چاہے وہ بچے کے لیے ہی کیوں نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے ۔
جواب: اگر ضرورت کا تقاضا نہ ہو تو جایز نہیں ہے ۔
جواب: اگر حرام لمس و نظر کا سبب نہ ہو تو اس سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں فرد یا سماج کی مصلحت پائی جاتی ہو۔
جواب: اگر اس کے دوبارہ کھلنے کا امکان نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر امکان ہو تو جائز ہے ۔ (اس شرط کے ساتھ کہ حرام لمس و نظر کا سبب نہ ہو) البتہ ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے ۔
جواب: ضروری موارد کے علاوہ جایز نہیں ہے ۔
جواب: عورت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ مثلا وہ نس بندی کرا لے حتی کہ اسے اس بات پر بھی مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ضد حمل دوا وغیرہ کھائے، ہاں مرد ایسا کرنے کے لیے دوا یا انجیکشن وغیرہ کا استعمال کر سکتا ہے تا کہ وقتی طور پر حمل ٹھرنے سے روکا جا سکے ۔
جواب: اگر یہ عمل فردی یا سماجی ضرورت کا حصہ نہ تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ البتہ ضرورت کے وقت (ماہر اور مورد اعتماد ڈاکٹر کی تجویز کے ساتھ) جائز ہے ۔
جواب: حمل ٹھرنے سے روکنے کے لیے ہر ایسے وسیلے اور ذرائع کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو بے ضرر ہوں اور مرد و عورت کے لیے کسی نقص کا سبب نہ ہوں۔ (جس سے مرد یا عورت ہمیشہ کے لیے بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ رہیں یا عقیم ہو جائیں) لیکن جو وسائل حرام نظر یا لمس کا سبب ہوں ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے مگر صرف ضرورت کے وقت۔
جواب: اگر اس نے بچہ کی حفاظت میں مطابق معمول عمل نہیں کیا ہے اور کوتاہی کی ہے تو وہ ذمہ دار ہے ۔
جواب: اگر اس نے بچہ کی حفاظت میں مطابق معمول عمل نہیں کیا ہے اور کوتاہی کی ہے تو وہ ذمہ دار ہے ۔
جواب: بچے کو سقط کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، مگر ضرورت کے وقت۔
جواب: اگر بچے کے ناقص الخلقت (معیوب) ہونے کا یقین ہو اور حمل ابتدائی مراحل میں ہو اور اس نے انسانی صورت اختیار نہ کی ہو، مزید علاج اس راہ پر منحصر ہو تو ایسا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
جواب: اگر بچے کے ناقص الخلقت (معیوب) ہونے کا یقین ہو اور حمل ابتدائی مراحل میں ہو اور اس نے انسانی صورت اختیار نہ کی ہو، مزید علاج اس راہ پر منحصر ہو تو ایسا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔