ایسے شخص کے پاس کام کرنا جس کی آمدنی حرام ہے
کیا ایسے شخص کے پاس کام کرنا جائز ہےجس کی آمدنی حرام پیسہسے ہوتی ہے؟
اگر یقین ہو کہ وہ آپ کی مزدوری حرام پیسے سے دیتا ہے تو جائز نہیں ہے۔
اگر یقین ہو کہ وہ آپ کی مزدوری حرام پیسے سے دیتا ہے تو جائز نہیں ہے۔
اگر نیا کام اس کے پہلے کام کے لئے مزاحمت کا سبب نہ ہو اور اس کے معاہدہ کے خلاف بھی نہ ہو تواس کے لئے دونوں تنخواہیں حلال ہیں۔
اگر یہ پیسہ دوکاندار کی آمدنی میں سے ہو نیز خریدی ہوئی چیزوں کی قیمت میں اثر انداز نہ بھی ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
نشہ کے عادی نہ ہونے کے ٹیسٹ کے لئے اس کام کی ضرورت نہیں ہے اور کوئی شخص بھی کسی دوسرے کو ایسے کاموں پر مجبور نہیں کرسکتا۔
ظاہراً جو اس حدیث یا اس جیسی دوسری حدیثوں میں آیا ہے وہ مال الخراج پر ناظر ہے؛ کیونکہ اراضی خراجیہ تمام مسلمانوں سے مربوط ہیں، لہٰذا خراج کے مال کو مساوی طور سے تقسیم ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بعید نہیں ہے کہ آپ کا یہ ارشاد اُن امتیازات کی طرف اشارہ ہو جو عثمان کے زمانے میں طاقتور لوگوں اور قبائل کے سرداروں کو دیئے جاتے تھے۔ لیکن اگرکثرت عیال، زیادہ کام یا زیادہ فعالیّت کی وجہ تنخواہوں میں فرق ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
مذکورہ چیزوں بلکہ ہر اس چیز کا پانی کی نالی میں پھینکنا جو لوگوں کے ضرر اور نقصان کا باعث ہو جائز نہیں ہے اور بہتر ہے کہ ان چیزوں کو اس جگہ پھینکا جائے جو اس کام کے لئے بنائی گئی ہے۔
یہ کام جائز نہیں ہے اور جو تنخواہ وہ وصول کریں گے اس میں اشکال ہے۔
جی ہاں، اگر وہ غلطی کرے اور احکامات کو قبول نہ کرے تو اس کو اخراج کرنے میں کوئی مانعت نہیں ہے، لیکن اس کے عرفی اور قانونی حقوق کو ادا کرنا ہونگے ۔
جو نوکر اپنے وظیفہ پر عمل نہ کرے اس کی تنخواہ میں اشکال ہے۔
سب سے بڑا عمل عفو وبخشش الٰہی پر اُمیدوار رہنا ہے اور ان کاموں سے پرہیز ہے جن کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام نے اپنے ارشادات میں بیان فرمائے ہیں اور علماء اور مجتہدین نے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں، کوشش کریں کہ مستقبل میں اچھے کاموں خصوصاً لوگوں کی زبان یا مال کے ذریعہ خدمت کرنے سے گذشتہ اعمال کی تلافی کریں۔
اگر آپ دین اور ایمان کی حفاظت کے لئے ہجرت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں پاتے ہیں تو اس صورت میں آپ کا ہجرت کرنا ایک ضروری اور بہتر کام ہوگا؛ لیکن اس کام کوزیادہ مطالعہ کے ساتھ اور ماں باپ کی رضایت سے انجام دیں۔
غسل اور تیمم دونوں صورت میں میت کے اوپر حنوط واجب ہے ۔
کپڑے پہن کر غسل ارتماسی کرنے میں اشکال ہے لیکن اگر اسی کپڑے پر غسل ترتیبی یوں کیا جائے کہ پانی کپڑے کے نیچے سے ہوتا ہوا جسم پر آرہا ہواور بدن کا تھوڑا حصہ پانی سے باہر ہو اور پھر پانی میں چلاجائے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
اس سلسلے میں اسلام نے بہت آسان راہ حل بیان کیا ہے یائسگی (خون حیض کا بند ہوجانا ) پیری کی مانند ایک فطری چیز ہے گرچہ اس کو بیماری نہیں سمجھنا چاہیئے اور عورت کا اس کے برے اثرات سے بچنے کے لیے علاج کرانا صحیح ہے لہذا جس عورت کی عمر قمری سال کے مطابق پچاس سال کی ہوگئی ہے اور وہ خون دیکھے تو یہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا بشرطیکہ اس میں تمام علامت حیض کے ہوں اور جن عورتوں کے لیے بار بار غسل کرنا ضرریا زیادہ مشقت کا باعث ہورہا ہو تو وہ عورتیں غسل کے بجائے تیمم کرکے اپنی نماز پڑھیں ۔
اس سلسلے میں اسلام نے بہت آسان راہ حل بیان کیا ہے یائسگی (خون حیض کا بند ہوجانا ) پیری کی مانند ایک فطری چیز ہے گرچہ اس کو بیماری نہیں سمجھنا چاہیئے اور عورت کا اس کے برے اثرات سے بچنے کے لیے علاج کرانا صحیح ہے لہذا جس عورت کی عمر قمری سال کے مطابق پچاس سال کی ہوگئی ہے اور وہ خون دیکھے تو یہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا بشرطیکہ اس میں تمام علامت حیض کے ہوں اور جن عورتوں کے لیے بار بار غسل کرنا ضرریا زیادہ مشقت کا باعث ہورہا ہو تو وہ عورتیں غسل کے بجائے تیمم کرکے اپنی نماز پڑھیں ۔