سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

خبر کے سلسلے میں نظام حکومت اور اسلام کے درمیان تعارض

کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جن میں ایک خبر ظاہراً اسلام کے خلاف ہو لیکن حقیقت میں وہ اسلامی نظام کے نفع میں ہوتی ہے (اقتصادی وغیرہ خبریں) خبرنگار کو کس خبر کو ترجیح دینا چاہیے؟

اس پر توجہ رکھتے ہوئے کہ نظام، اسلام کی بنیاد پر استوار ہے لہٰذا ایسا تضاد متصوّر نہیں ہے، مگر ان لوگوں کے لئے جن کی یا تو مسائل اسلامی کی طرف توجہ نہیں ہے یا وہ مصالح نظام سے بے خبر ہیں ۔

اقسام: خبر

بے جا چیک کی وجہ سے چیک کے مالکوں کے قید کی دلیل

کچھ عرصہ پہلے عدلیہ کے رئیس نے فرمایا تھا :”فقہ اسلامی کی نظر سے چیک اور قرضے زندان کا سبب نہیں بنتے“ اور یہ بھی فرمایا تھا : ”بہت سی وقتی قیدوں کی کوئی فقہی اور حقوقی دلیل نہیں ہے تو“ کیوں مراجع عظام، علماء کرام اور بزرگان دین نے اس طرح کے مسائل کے مقابلہ میں سکوت اختیار کیا؟ اگر کوئی مسئلہ فقہی اور دینی دلیل نہیں رکھتا تو کیوں اجراء ہوتا ہے؟

جواب : بے جا چیک کے سلسلہ میں ، قید کے مسئلہ کی دو دلیلیں ہوسکتی ہیں :اول : یہ کہ ثابت ہو کہ طر ف مقابل کچھ اموال رکھتا ہے جن کے ذریعہ اپنے قرض کو ادا کرسکتا ہے(مستثنیات دَین کے علاوہ)۔دوم : یہ کہ حکومت اسلامی ثابت کرے کہ بے جا چیکوں کے سلسلے میں کوئی کار وائی نہ کرنا معاشرے کے اقتصادی نظام کو متزلزل کردے گی۔

اقسام: تعزیرات

یتیم خانہ کا تحفہ“ کے عنوان سے ٹکٹ فروخت کرنا

کچھ عرصہ پہلے ایک مشکوک اقتصادی پیشکش اور پروگرام جو بظاہر یورپ سے لیا گیا ہے، حکومت کی اجازت سے ملک (ایران) کے بعض علاقوں میں اجرا کیا جارہا ہے، مذکورہ پیشکش اس قسم کی ہے:جو شخص اس اقتصادی پرگرام میں شریک ہونا چاہتا ہے ، پہلے مرحلہ میں ایک فارم دریافت کرتا ہے جس کی پشت پر، پروگرام چلانے والوں کے بینک کے اکاوٴنٹ نمبر کے ساتھ ساتھ سات لوگوں کا مکمل نام، پتہ اور اکاوٴنٹ نمبر درج ہوتا ہے، فارم کو وصول کرنے والے شخص کے لئے اس پروگرام میں شریک ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مبلغ پانچسو تومان پروگرام چلانے والوں کے بینک اکاوٴنٹ میں اور مبلغ دو سو تومان، فارم کے پیچھے درج شدہ ہر نام کے اکاوٴنٹ میں جمع کرکے دفتر کے پتہ پر روانہ کرے، کچھ مدت بعد اس دفتر کی طرف سے سات فارم اس کے لئے بھیجے جائیں گے، جن میں اس کا نام پہلے نمبر پر درج ہوگا اب اس کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ سات فارموں کو سات کارآمد اور فعّال اشخاص اور ممبروں میں تقسیم کرے ، مذکورہ فارم وصول کرنے والے اشخاص بھی اسی طرح عمل کریں گے، یہ قصہ اسی طرح جاری رہے گا، وہ لوگ مدّعی ہیں کہ آخر میں ہر شخص کو مبلغ ۰۰/۴۰۰/۶۸۱/۱ تومان حاصل ہوجائیں گے، دفتر کے کھاتے میں جمع ہونے والی رقم میں دس فیصد نیک کاموں میں خرچ کی جائے گیبرائے مہربانی اس مسئلہ کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟

اقتصاد کی اس قسم کی جھوٹی فعالیّت جائز نہیں ہے ، یہ مغربی دنیا کی بدترین دھوکہ دھڑی ہے، ایسا کذنے والا شریعت کی رو سے مستحق سزا ہے، اس لئے کہ وہ لمبی رقم جو بعض لوگوں کو دی جائے گی، نہ تو پیداوار سے حاصل ہوتی ہے اور نہ تجارت سے وصول ہوئی، بلکہ دھوکہ سے دوسروں کا مال ہڑپ کرکے کچھ حصہ، ادارے کے لئے، کچھ شریک ہونے والوں کے لئے اور ظاہر کو بچانے کے لئے ممکن ہے کچھ رقم کو نیک کاموں سے مخصوص کردیں، یہ عجوبہ اقتصادی پروگرام غیرممالک سے آئے ہیں، امید ہے مربوط محکمہ متوجہ ہوجائے اور اس طرح کے مسائل سے دھوکہ نہ کھائے، قابل احترام اسلامی حکومت پر لازم ہے اس مسئلہ میں مداخلت کرے اور اس غلط اقتصادی فعالیت کی روک تھام کرے، اس لئے کہ جب اس میں شریک حقداروں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی اور عملی طور پر پروگرام ایک مقام پر موقوف ہوجائے گا اور شریکوں کی کثیرت تعداد کوکچھ وصول نہیں ہوگا تب ممکن ہے کہ معاشرے میں شور وشرابہ ہو، ہماری عزیرالقدر قوم پر بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے تاکہ اس قسم کے جال میں نہ پھنسیں ۔

مضاربہ میں یقینی منافع معیّن کرنا

کچھ عرصہ پہلے اس کمپنی نے سامان بنانے والے ایک تجارتی ادارے کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، جس کی بنیاد پر کمپنی کچھ قرض (لون) مذکورہ ادارے کودے گی اور ادارہ بھی اطمینان کے ساتھ اپنی فیکٹری سے حاصل ہونے والے چالیس فیصد فائدہ میں تیس فیصد فائدہ کمپنی سے مخصوص کردے گا دوسری طرف کمپنی نے بھی اسی مقصد سے ایک خاص اکاوٴنٹ کھولا ہے اور ضروری رقم کو، رقم جمع کرنے والے ممبران کے ذریعہ جمع کرتی ہے اور وہ اس مخصوص اکاوٴنٹ میں سرمایہ جذب کرنے کے اقدامات کرتے ہیں، واضح ہے کہ سرمایہ جذب کرنے کے لئے بھی اس کمپنی نے سرمایہ لگانے والوں کے سامنے اس مسئلہ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ کمپنی اس جمع کی ہوئی رقم سے استفادہ کرنے سے ۳۰/ فیصد منافع کی ضامن ہے جس میں آٹھ فیصد کمپنی وصول کرے گی اور باقی بائیس فیصد منافع، سرمایہ جمع کرنے والے ممبران کو ادا کرے گی، اب یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ یہ موضوع یقینی طور پر معیّن کردیا جاتا ہے کیا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔؟

اگر اس ادارے کا منافع مذکورہ مقدار سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

سگریٹ نوشی کے حرام ہونے پر مشتمل فتوے کی دلیلیں

کچھ عرصہ سے مختلف محفلوں میں یہ بات ہورہی ہے کہ جنابعالی نے سگریٹ پینے کو حرام قرار دیا ہے، اس سلسلہ میں ہم لوگ آپ کی خدمت میں مزید وضاحت کے خواہشمند ہیں؟

چند سال پہلے میں نے یہ فتویٰ مشروط طور پر بیان کیا تھا، جو توضیح المسائل میں موجود ہے کہ: ”سگریٹ یا دیگر تمباکو نوشی، ماہرین اور بااطلاع حضرات کی تشخیصکے مطابق، مہم ضرر ونقصان کا باعث ہو تو حرام ہے ۔“ لیکن کچھ مدّت پہلے، بعض صاحب معلومات ڈاکٹر اور یورنیوسٹی کے بعض موٴمن ومتدیّن اساتذہ کی گواہی اور سگریٹ نوشی سے مرنے والے نیز اس سے پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں کی دل ہلانے والی تعداد جو ہمیں بتائی گئی ہے اس سے ہمارے لئے ثابت اور مسلّم ہوگیا ہے سگریٹ پینے والوں کے بچّے اور ان کے ساتھ رہنے والے لوگ بھی اس کے نقصانات سے محفوظ نہیں! لہٰذا ہم نے مطلقاً طور پر اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دے دیا ہے، ہم خداوندعالم کی بارگاہ میں دعاگوں ہیں کہ پرورگار عالم دنیا کے تمام مسلمانوں خصوصاً عزیدالقدر جوانوں کو جو گھروں کو تباہ وبرباد کرنے والی خطرناک بلاء کی پہلی قربانی ہوتے ہیں، اس کی آفت سے محفوظ رکھے اورعزیز القدر ہوشیاری کے ساتھ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے بارے میں ہوشیار رہیں، انشاء الله ہم اس وقت تک زندہ رہیں اور معاشرے کو اس دھوئیں کی آلودگیوں سے پاک وصاف ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے نظارہ کریں ۔یہاں پر فضلاء وعلماء کے مکرّر تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے، اس مسئلہ کی دلیلوں کی جانب مختصر سا اشارہ کیا جارہا ہے:۱۔ قرآن مجید سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۹۵ میں ارشاد فرماتا ہے: (اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو) ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ جو تعداد بتائی گئی ہے اس کے مطابق ایک سال میں پچاس لاکھ لوگ سگریٹ کے دھوئیں سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں! اور سگریٹ کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی خطرناک بیماریاں، دل، سانس اور کینسر جیسے خطرناک امراض کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، لہٰذا اس بناپر سگریٹ نوشی، خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنے کا مصداق ہے ۔۲۔ قاعدہٴ ”لاضرر ولاضرار فی الاسلام“ یہ قاعدہ متعدد روایتوں سے حاصل ہوا ہے، اگرچہ یہ قاعدہ اور اس سے متعلق کی روایات، دوسروں کو نقصان پہنچانے کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں لیکن ہمیں معلوم ہوا ہے کہ شان نزول، کسی قاعدہ کے عام مفہوم کو محددد نہیں کرتی لہٰذا یہ قاعدہ اپنے نفس کو نقصان پہنچانے کو بھی شامل ہوگا ۔۳۔ فقہ الرضا علیہ السلام کی مشہور ومعروف حدیث میں آیا ہے: ”کُلّ اٴَمرٍ یَکُون فِیہِ الْفِسَاد مِمَّا قَدنَھیٰ عَنہُ فَحَرامٌ ضَارٌّ لِلْجِسْمِ وَفِسَادٌ لِلنَّفْسِ“ کتاب تحف العقول میں بھی اسی کے مشابہ روایت وارد نقل ہوئی ہے ۔ان روایات کے مطابق ہر وہ چیز جو بدن کے لئے اہم نقصان کا باعث ہو، حرام ہے، البتہ مختصر سا نقصان جو ہر چیز میں ہوتا ہے اور وہ چیز قابل پرہیز ہی نہیں ہوتی اس کی بات اس سے علیحدہ ہے، یہاں پر مقصود، عام اور کلی نقصانات ہیں ۔۴۔ بعض لوگوں کو مٹّی کھانے کی عدات ہوتی ہے جسے اسلامی احادیث اور روایات میں ایک قسم کے وسواس کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس سے شدّت سے منع کیا گیا ہے، اس لئے کہ انسان کے لئے نقصاندہ ہے، ایک روایت میں آیا ہے: ”اِنّ الطِّینَ یورثَ السُّقمَ فی الجَسدِ ویُھَیِّجُ الدّاء“(مٹّی گارا کھانا، بیماری اور درد میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے)لہٰذا کتاب مسالک میں مرحوم شہید نے اس کی پہلی دلیل ” لما فیہ الاضرار الظاھر للبدن؛ بدن کے لئے اس کا نقصاندہ ہونا ہے“ شمار کیا ہے، یہ چیزیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ضرر رساں اشیاء کا استعمال مسلّم طور پر حرام ہے یہاں تک کہ اگر واجب روزہ بھی نقصاندہ ہو تو اس کو ترک کرنا چاہیے، اسی طرح واجب غسل اور وضوء ضرر کی حالت میں تیمم میں بدل جاتے ہیں ۔۵۔ ان سب سے ہٹ کر، علم اصول کے مسلّم قاعدہ اور قانون ”کلّما حکم بہ العقل حکم بہ الشرع“ (ہر وہ چیزجس کا حکم، عقلی دیتی ہے شریعت بھی اس کا حکم دیتی ہے) ہمارے زمانے میں سگریٹ اور ہر طرح کی تمباکو نوشی کے حرام ہونے کا مسئلہ میں کہ جس کے نقصانات تمام دانشمند حضرات پر واضح ہوچکے ہیں، کسی شک وتردید کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے، تمام مجتہدین کا نشہ آور چیزو کے استعمال کے حرام ہونے کا فتویٰ بھی انھیں دلیلوں سے حاصل ہوتا ہے ۔(۱)ملک ایران میں سگریٹ پینے والے تقریباً ایک کروڑ آدمی روزانہ تین ارب تومان سے زیادہ سگریٹ میں خرچ کرتے ہیں،( یعنی ہر سال دس کھرب تومان سے زیادہ!)اگر درمیانی لحاظ سے حساب کیا جائے تو حکومتیں سگریٹ کے خرچ کے دو گنی رقم ”سگریٹ نوشی سے پیدا ہونی والی بیماریوں پر“ خرچ کرتی ہیں یعنی ایران میں روزانہ تقریباً چھ ارب تومان (اور سال میں بیس کھرب سے زیادہ)ایران میںایک سال میں چوّن (۵۴) ارب سگریٹ خرچ ہوتی ہیں جن میں سے بارہ ارب سگریٹ ایران میں بنائی جاتی ہیں اور باقی زیادہ تر اسمگلنگ کے ذریعہ وارد ہوتی اور خریدو فروخت کی جاتی ہیں (یعنی ۷۵ فیصد سے زیادہ رقم بیرون ملک چلی جاتی ہے)ملک کے جوان اور نوجوان (دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچّے) سگریٹ نوشی کی طرف ترغیب دلانے کے لئے اصل ٹارگیٹ ہوتے ہیں ۔نوجوانوں میں سگریٹ نوشی، نشہ کی عادت اور معاشرے کی تمام مشکلات کا دروازہ ہے ۔سگریٹ نوشی نہ کرنے والے اشخاص خصوصاً سگریت پینے والوں کے بیوی بچّے بھی، اسی قدر سگریٹ کے دھوئیں کے خطرے میں ہیں اور یہ بے گناہ لوگ زبردستی اور مجبوراً اپنی سلامتی سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔امریکن کمپنیاں سالانہ ساٹھ کھرب سگریٹ بناتی ہیں جن میں تقریباً تین فیصد خود امریکہ میں استعمال ہوتی ہیں اور باقی ستّانوے فیصد تمام ممالک خصوصاً غریب اور ترقی کی راہ پر گامزن ممالک کے لوگوں کودی جاتی ہیں اور اس طریقہ سے اس کی کمپنیوں کو تین کھرب ڈالر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے جو ایران کی بیس سال کی تیل آمدنی کے برابر ہے!۱۔ تمباکو نوشی سے متعلق صاحبان اطلاع حضرات کے نظریاتچونکہ مجتہد کا کام حکم کو معین کرنا ہے جبکہ موضوع کی تشخیص کا کام ماہر فن اور صاحبان اطلاع کے ذمّہ ہوتا ہے، لہٰذا ہم یہ بات تمباکو نوشی سے مقابلہ کرنے والی انجمن جو تجربہ کار ڈاکٹروں، یونیورستی کے اساتذہ اور دیگر ماہر فن پر مشتمل ہے، کے سپرد کردیتے ہیں:سگریٹ نوشی، پچاس قسم سے زیادہ امراض اور بیس قسم کے کینسر کا اصلی سبب یا اس میں کسی حد تک موٴثر ہے ۔سالانہ پچاس لاکھ آدمی سگریٹ نوشی کی وجہ سے جان دیتے ہیں، (یعنی پہلی عالمی جنگ میں قتل ہونے والوں کی تعداد سگریتسے مرنے والوں کی تعداد سے دوگنی ہے اس لئے کہ پہلی عالمی جنگ میں چار سال کے اندر ایک کروڑ لوگ مارے گئے ہیں، جبکہ سگریٹ نوشی سے پوری دنیا میں چار سال کے اندر دو کروڑ آدمی مرتے ہیں!)سن ۲۰۲۰ عیسوی میں سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سالانہ ایک کروڑ آدمی مریں گے، اس فرق کے ساتھ کہ ان میں سے ستّر لاکھ آدمی ترقی کی راہ پر گامزن ممالک میں اور تیس لاک لوگ ترقی یافتہ ممالک میں مریں گے

ائمہ (ع) کےنام کے ساتھ اللہ لگانا

کچھ عرصہ سے تہران کی بعض مجالس اور انجمنوں میں اس طرح کے اشعار پڑھے جا رہے ہیں جس میں ائمہ کے مبارک اسماء کے ساتھ لفظ جلالہ اللہ کو جوڑا جا رہا ہے جیسے شاعر کے مطابق میں علی اللہی، حسین اللہی، زینب اللہی ہوں کیا یہ جایز ہے؟

اس طرح کے الفاظ اور تعبیرات کا استعمال اھل بیت (ع) کے ماننے والوں کے شایان شان نہیں ہے، ایسے لوگوں کو سمچھایا اور اس طرح کے کاموں سے روکا جائے۔ اھل بیت (ع) کی منزلت بیان کرنے کے اور بھی بہت سے معقول اور مناسب ذرایع موجود ہیں لہذا اس طرح کے باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اقسام: تبلیغ

ربیع الاول کی چاند رات کو مسجد کی پشت پر اجتماع

کچھ سالوں سے بہت سی مسجدوں میں ایک چیز کا رواج بڑھتا جارہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کی خرافات ہے، داستان اس طرح ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے کی پہلی تاریخ کی رات میں، آدھی رات سے اذان صبح تک، کچھ لوگ، (جن میں اکثر خواتین ہوتی ہیں) ہاتھ میں شمع لئے ہوئے مسجد کے پیچھے جمع ہوتی ہیںاور آہستہ آہستہ مسجد کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور دعا وٴمناجات اور کچھ اذکار پڑھتے ہوئے اپنی حاجت طلب کرتی ہیں اور تضرع وگریہ وزاری کی یہ حالت اذان صبح کے وقت اپنی پوری ترقی ہوتی ہے جو بھی اس طرح کا عمل انجام دیتی ہے تو جیسا کہ اس جلسہ میں موجود بعض خواتین سے سنا گیا ہے کہ: یہ کام ہم وغم کے دور کرنے، حاجتوں کے برآوردہ ہونے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے دل کی تسلّی کا باعث ہوتا ہے ۔لہٰذا حضور فرمائیں:۱۔ کیا ایسے عمل کی بنیاد، کوئی روایت ہے؟۲۔ کیا ایسا عمل(کہ جو پھیلتا جارہا ہے) شائستہ اور اچھے عمل ہونے کی حیثیت سے دوسروں کے لئے پیروی کا باعث ہے ۔۳۔ اگر یہ عمل (خدانخواستہ) خرافات اور ایک طرح کی بدعت ہو تو آئمہ جماعت اور متدین مومنین کا کیا وظیفہ ہے؟

اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ عمل معصومین کی روایات میں وارد نہیں ہوا ہے تو اس کو شرعی مسحتب کی حیثیت سے انجام دینا جائز نہیں ہے اور بہتر ہے کہ آئمہ جماعت لوگوں کو اُن توسّلات اور راز ونیاز کی طرف دعوت دیں کہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں وارد ہوئے ہیں، ورنہ ممکن ہے کہ منحرف افراد مذہب کی توہین کے لئے ہر روز ایک نئی بدعت ایجاد کریں اور اچانک اس کی طرف دعوت دیں ۔

وہ زمین جن کے ملکیت میں آنے کا طریقہ معلوم نہیں

کچھ زمین، ہمیں اپنے باپ داد کی جانب سے وراثت کے ذریعہ، حاصل ہوئی ہیں، لیکن وہ حضرات کیسے ان زمینوں کے مالک بنے، یہ بات ہمارے لئے واضح نہیں ہے، کیا ہم لوگ دوسرے مال کی طرح ان زمینوں کو بھی میراث کے قانون کے مطابق، تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر تمہارے باپ داد نے، ان زمینوں کو آباد کیا تھا اور اس سے پہلے وہ زمینیں بنجر اور بے آباد تھیں تب تو میراث کے قانون کے مطابق وارثوں کو ملیں گی، اسی طرح اگر انھوں نے خریدا ہو تب بھی لیکن اگر کوئی سند ان زمینوں کے ماضی کے متعلق، موجود نہیں ہے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے تب وہ زمین تمھارے باپ دادا کی ملکیت تھی اور میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

وہ زمین جن کے ملکیت میں آنے کا طریقہ معلوم نہیں

کچھ زمین، ہمیں اپنے باپ داد کی جانب سے وراثت کے ذریعہ، حاصل ہوئی ہیں، لیکن وہ حضرات کیسے ان زمینوں کے مالک بنے، یہ بات ہمارے لئے واضح نہیں ہے، کیا ہم لوگ دوسرے مال کی طرح ان زمینوں کو بھی میراث کے قانون کے مطابق، تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر تمہارے باپ داد نے، ان زمینوں کو آباد کیا تھا اور اس سے پہلے وہ زمینیں بنجر اور بے آباد تھیں تب تو میراث کے قانون کے مطابق وارثوں کو ملیں گی، اسی طرح اگر انھوں نے خریدا ہو تب بھی لیکن اگر کوئی سند ان زمینوں کے ماضی کے متعلق، موجود نہیں ہے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے تب وہ زمین تمھارے باپ دادا کی ملکیت تھی اور میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت