ایک شخص کا ترک فعل، دوسروں کی موت کا سبب ہوجانا
ایک شخص کافعل دوسرے شخص کی موت کا سبب ہوا کیا اس کو فقط ترک فعل کی بنیاد پر سزا دی جاسکتی ہے؟ ذیل میں دی گئی مثالوں پر توجہ فرمائیں :الف : ایک ماں علم رکھتے ہوئے کہ اس کا بیٹا دودھ کی حاجت رکھتا ہے عمدا دودھ نہیں پلاتی نتیجہ بچہ مرجاتا ہے، کیا یہ قتل عمد ہے یا کوئی اور قتل شمار ہوگا؟ ب : اگر ریلوے ملازم جس کا وظیفہ پروگرام کے مطابق ریل لائن کو جابجا کرنا ہے ، خطرہ کا علم رکھتے ہوئے اس فعل کو انجام نہیںدیتااور اس کا یہ کام نہ کرنا دوریل گاڑیوں کے ٹکرانے اور مسافرین کے مرجانے کا سبب ہوجائے ، کیا قتل عمد شمار کیا جائے گا؟ج : نرس ، جس کا وظیفہ معینہ وقت پر بیمار کو دوا دینا ہے، عمدا اس کام سے خوداری کرے اور بیمار مرجائے ، جب کہ یہ بھی جانتی تھی یا جانتا تھا کہ بیمار کو دوا دینا اس کی زندگی کے مترادف ہے، یہ کس نوع کا قتل شمار ہوگا؟د : ڈوبنے والے کو نجات دینے والا، ڈوبتے ہوئے شخص کو دیکھ کر بھی نجات نہیں دیتا، جبکہ اس کا یہ ہی وظیفہ تھا، اور ڈوبنے والا مرجائے ، کیا یہ قتل عمد ہے؟۔
جواب : الف سے آخر تک : ان موارد میں جہاں قتل کی نسبت ایسے شخص کی طرف دی جائے، ویا بعبارت دےگر سبب مباشر سے اقوی ہو ، جیسے پہلی اور دوسری مثالوں میں، قتل صادق آتاہے اور اسی کے احکام جاری ہوتے ہیں، تیسری اور چوتھی مثال میں موارد مختلف ہیں۔
کسی کو سوتے ہوئے قتل کردینا
اگر ایک شخص کسی کے پاس سوئے اور دوسرا سوتے ہوئے اسے قتل کردے، نیچے کی صورتوں میںمسئلہ کا حکم کیا ہے؟الف : اس صورت میں جب کہ احتمال دیتا ہو کہ سوتے ہوئے اس کو قتل کردےگا ۔ب :اُس صورت میںجبکہ کسی طرح کا احتمال نہ دیتا ہو-۔ج : اس صورت مین جبکہ یقین رکھتا ہے کہ اسکو قتل کر دےگا ، اور قتل کے قصد سے اس کے پاس سویا ہو ؟
جواب : اس صورت میں جب یقین رکھتا تھا یا احتمال غالب دیتا تھا کہ اس کو قتل کردےگا، قتل عمد شمار ہوگا ، اس صورت کے علاوہ یہ قتل، شبہ عمد ہے۔
قتل میں ضرب لگانے والے اور ڈاکٹر کی ذمّہ داری کا معیار
کوئی آدمی کسی کے بارے میں کوئی ایسا کام انجام دیتا ہے جو یا تو عام طور پر موت کاسبب ہوتا ہے جیسے سمّ قاتل یعنی زہر دینا یا عام طور پر موت کا باعث نہیں ہوتا، جیسے کسی کے بازو پر معمولی زخم لگادینا، بہرحال دوسرے فریق کو اسپتال لے جایا جاتا ہے اور پہلے فرض میں، ڈاکٹر اپنی ذمّہ داری کے مطابق عمل نہیں کرتا اور زہر کے اثر کو ختم نہیں کرتا اور دوسرے فرض میں ڈاکٹر کی بے توجّہی اور غیر طبّی آلودہ اوزار کے استعمال کی وجہ سے، سیپٹک ہوجائے جس کے نتیجہ میں، زخمی شخص کے بدن کا کوئی حصّہ کاٹ دیا جائے یا وہ بھی مرجائے، ان دونوں صورتوں میں، قاتل کون ہے؟ قتل کس نوعیت کا ہے؟ اور اگر ڈاکٹر اور مارنے والا دونوں لوگ اس کی موت کے ذمّہ دار ہیں تو اس صورت میں دونوں کی ذمّہ داری کی کیا کیفیت ہوگی؟
پہلے فرض میں، جس شخص نے زہر قاتل دیا ہے وہی قاتل شمار ہوگا اور قتل عمد ہے اور دوسرے فرض میں کہ ڈاکٹر کی غلطی اس کی موت کا باعث ہوئی ہے وہی ڈاکٹر قاتل سمجھا جائے گا لیکن اس صورت میں قتل، قتل شبہ عمد ہے اور اگر دونوں اس کی موت کے ذمّہ دار ہیں تو اس صورت میں قتل میں دخالت کی مقدار کے مطابق، ان کے اوپر دیت لازم ہوجائے گی ۔
گولی چلتے ہوئے بچے کا قتل ہوجانا
کچھ لوگوں نے دشمنی کی بنا پر ایک دوسرے پر گولی چلائی ہے، ایک بارہ سال کا بچہ جو وہاں سے گذر رہاتھا ایک معینشخص کی گولی سے قتل ہوجاتا ہے، بعضعلماء دین نے دیت کی مقدار کو معین کردیا . دیت کی کچھ مقدار کو قاتل کے اوپر اور کچھ مقدار کو دوسرے اشخاص کے ذمّہ ٹھہرایا،اس قضاوت کا شرعی حکم کیا ہے؟۔
جواب : اگر گولی جلانے والے نے اس بچے کو دیکھا تھا اور دیکھ کر اس کی طرف گولی چلائی تھی تو یہ قتل، قتل عمد شمار ہوگا ؛ ہر چند کہ اس کے قتل کا قصد نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں جب کہ دیت پر موافقت کرلی ہو تو تمام دیت قاتل کے ذمہ ہے۔
خود کشی پر اکراہ اور اجبار کرنا
ایک خاتون مناسب اخلاق نہیں رکھتی تھی، اپنے بھایؤں سے مار کھاتی تھی، بھائیوں کی مار کے نشانات اسکے بدن پر دیکھے جا سکتے تھے، پھر اس کے بھائیوں نے مقدمات قتل کی آمادگی کی ، رسی کو کسی چیز میں باندھا اور اپنی بہن کوخودکشی پر مجبور کیا ، بہن نے بھی رسی کو گلے میں باندھ لیا اور پھانسی کھا لی، کیا اس مرحومہ کی مار پیٹ اور اس کے لئے پھانسی کے وسائل کو فراہم کرنا قتل میں اکراہ واجبار کے مصادیق میں سے شمار ہوگا؟ اکراہ واجبار کرنے والوں کا شرعی حکم کیا ہے؟۔
جواب : جب بھی ثابت ہوجائے کہ اکراہ اس حد تک تھا کہ اس خاتون نے شدیدشکنجے کی وجہ سے خودکشی پر اقدام کیا ، اکراہ کرنے والے قاتل عمد کے حکم میں ہیں۔
ایسے شخص کو گولی لگنا کہ جس کے قتل کا قصد نہ ہو
ایک شخص نے کچھ آدمیوں کی طرف گولی چلائی اور ایک ۱۴ سالہ بچے کو بغیر کسی تقصیر کے قتل کردیا، اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ قاتل کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اس کے قتل کا قصد نہیں رکھتا تھا تو فرمائیں مذکورہ قتل کس نوع کا قتل ہے اور اس قتل کا حکم کیا ہے؟
جواب : اس صورت میں جب اس نے کچھ آدمیوں کی طرف گولی چلائی تو یہ قتل عمد شمار ہوگا ؛ ہر چند کہ کہے کہ وہ قتل کا قصد نہیں رکھتا تھا۔
گاڑی ایکسیڈیٹ میں ہونے والے زخمی کو ایسے ہی چھوڑ دینا
ایک قصور وار ڈرائیور سڑک پر پیدل چلنے والے شخص کو ٹکّر مار دیتا ہے اور اسپتال لے جانے کے بہانے سے زخمی کو گاڑی میں سوار کرلیتا ہے لیکن سزا کے خوف سے اُسے جنگل بیان میںلوکوںکی رسائی سے دور چھوڑکرفرار ہوجاتاہے ،زخمی شخص کا خونریزی اور طبّی امداد نہ ملنے کی و جہ سے اسی بیابان میں انتقال ہوجاتا ہے، کیا اس قتل کو، قتل عمد شمار کیا جائے گا؟
اگر اس کا اس حال میں بیابان میں چھوڑ دینا باقاعدہ، اس کی موت کا باعث تھا تب یہ قتل عمد ہی شمار ہوگا ۔
ملزموں پر پولیس کا گولی چلانا
اگر پولیس کا کوئی سپاہی کسی مجرم کا تعاقب کرتے وقت مجرم کی طرف گولی چلادے اور مجرم قتل ہوجائے کیا یہ قتل عمدی ہے یا مشابہ عمد میںشمار ہوگا؟ اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟
اس مسئلہ کی چند صورتیں ہیں:پہلی صورت: یہ ہے کہ بھاگنے والے شخص پر چھوٹے جرم کا الزام ہے جس کی سزا تعزیر ہوتی ہے، اس صورت میں ہوائی فائر یا پیروں کی طرف گولی چلانے کے سوا کچھ اور کام نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ مذکورہ فرض میں وہ مجرم، جرم کے ثابت ہونے کے بعد بھی، اسی قسم (قتل) کی سزا کا مستحق نہیں ہے ۔دوسری صورت: یہ ہے کہ اس پر اس قسم کے جرم کا الزام ہے کہ جس کے مقابلہ میں شدید ردّ عمل نہ کرنے کی صورت میں، معاشرے کا پورا نظام درہم وبرہم ہوجائے گا اور پورے معاشرے کو خطرہ ہے، اس صورت میں آسان سے آسان تر (الاسہل فالاسہل) طریقہ اپنانا چاہیے اور درجہ بدرجہ اقدامات کئے جائیں اور اگر مثال کے طور پر ملزم کے پیروں کی طرف فائر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور سپاہی بھی ماہر تھا اس کے باوجود نشانہ خطا ہوگیا اور گولی ایسی جگہ لگ گئی جو اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی، اس صورت میں اس کا خون (قتل) ہدر ہے یعنی نہ اس کا قصاص ہے اور نہ دیت، اس لئے کہ جو کام حاکم شرع کی اجازت سے انجم دیا گیا ہو اور مد مقابل بھی اس کا مستحق ہو، اس کی کوئی دیت نہیں ہوتی ہے ۔تیسری صورت: یہ ہے کہ وہ جرم (جس کا اس پر الزام ہے) پورے نظام کے درہم وبرہم ہونے کا باعث نہ ہو لیکن بہرحال جرم سنگین ہو اور اگر ایسے جرم کی روک تھام نہ کی جائے (جیسے جنگ کی حالت میں دشمنوں کو اسلحہ سپلائی کرنا) اور حسّاس علاقوں میں اس کے خلاف اقدام نہ کئے جائیں تو جنگ کی سرنوشت اور نتیجہ تبدیل کئے بغیر ہی بہت زیادہ لوگ قتل ہوجائیں گے، اس صورت میں بھی سلسلہ وار گولی چلانا جائز ہے اور اگر اس کے نتیجہ میں وہ قتل ہوجائے تو اس کا خون ہدر ہے یعنی اس کی دیت یا قصاص نہیں (البتہ ان شرائط کے ساتھ جو اوپر بیان کئے گئے ہیں)۔
عورت کا مقتول پر زنا بالجبر کرنے کا دعویٰ
شوہر اور بیوی کے مشترک گھر میں ایک قتل واقع ہوتا ہے، الزام شوہر اور بیوی اور شوہر کے چچازاد بھائی پر آتا ہے جبکہ مقتول بالکل اجنبی تھا اور کوئی سببی یا نسبی یہاں تک کہ جانکار تک نہ تھا، ملزمہ ابتدا میں ، قتل کی وجہ، اپنے اوپر مقتول کے زبردستی دست درازی کرنے کو عدالت میں بیان دیتی ہے. اور قتل میں مباشرت کا اقرار کرتی ہے؛ لیکن بعد میں اس کی تکذیب کرتی ہے. ملزمہ کا شوہر کہتا ہے :”ہر چند کہ وہ شخصاً مقتول کی سلب حیات پر موفق نہیں ہوا، لیکن اعتقاد رکھتا ہے ایسا متجاوز شخص شرعاً قتل کا مستحق ہے“تیسرا ملزم ، قتل میں شرکت کا منکر ہے.ملزمہ کے بیان اور قتل مذکور میں شریفانہ انگیزہ پر توجہ رکھتے ہوئے فرمائیں کیا یہ قتل موارد قصاص میں سے ہے؟
جواب : اگر ثابت ہوجائے کہ قاتل وہ ہی عورت ہے لیکن جب تک ثابت نہ ہوجائے کہ اس کا انگیزہ اپنی عزت کی حفاظت کرنا تھا، تو قصاص ہونا چاہئے۔
۔اگر صنعتی الکل کا استعمال موت کا سبب بن جائے
ایک فوجی جوان، الکحل (اسپریٹ) کی دو بوتلیں اپنے ساتھ چھاؤنی میں لے آیا، وہاں لا کر پہلے تو اس نے الکحل اور اسپریٹ کے نقصان سے بچنے کی غرض سے، اپنے ساتھی دوسرے فوجیوں کی مدد نیز آلات اور اوزاروں کے ذریعہ جو ان کے پاس موجود تھے، اس اسپریٹ کو فلٹر کیا اور اس کے بعد مست ہونے کے ارادے سے ، اس نے اور اس کے چند فوجی ساتھیوں نے اس کو پی لیا، یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ الکحل اور اسپریٹ کا استعمال بہت ہی خطرناک اور مہلک ہوتا ہے، ایک فوجی زیادہ پینے کی وجہ سے مرجاتا ہے اور باقی سب کو ابکائیاں اور قے آجاتی ہیں، کیا اس صورت میں جو شخص چھاؤنی میں وہ الکحل اور اسپریٹ لایا تھا وہ مرنے والے کے سلسلہ میں جو اپنے اختیار سے الکحل اور اسپریٹ پی کر مرگیا تھا، ذمہ دار ہوگا؟
اگر اسپریٹ پینے والے اس کے نقصان سے آگاہ تھے تو اس صورت میں کوئی ان کے سلسلہ میں ذمہ دار نہیں ہے لیکن اگر اسپریٹ لانے والے نے انھیں بہکایا ہے اور انھیں غفلت میں رکھا ہے کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہے تو اس صورت میں وہ ذمہ دار ہے اور آخری فرض میں، قتل شبہ عمدی ہے