سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

غیر مسلم شخص پر حدود اسلامی کا جاری کرنا

کیا حدود الٰہی غیر مسلم کے اوپر ہی جاری ہوسکتی ہےں؟ مثال کے طور پر، اگر ایک عیسائی شراب پئے ،یا زنا کرے کیا اس کا حکم مسلمان کے حکم سے جدا ہے اور کیا ان کے آئین کے مطابق ملزم پر حکم صادر ہونا چاہئے؟

جواب: زنا اور لواط جیسے جرم میں اگر دونو ں شخص غیر مسلمان ہوں تو حاکم شرع مخیر ہے کہ اسلام کے قوانین کے مطابق حکم جاری کرے یا ان کو ان کی عدالتوں کی طرف بھیج دے لیکن اگر ایک طرف مسلمان ہو ، چنانچہ اگر زانی مسلمان ہے اسلام کے حکم پر اس کے ساتھ عمل ہوگا، دوسرے شخص کے مورد میں مخیر ہے کہ اسلام کے قوانین کے مطابق عمل کرے یا اس کو اس کی عدالت کی طرف بھیج دے۔

ایسے اشخاص کو دوبارہ سزا دینا جو بیرون ملک سے سزا پاچکے ہوں

چنانچہ کچھ افراد بیرون ملک کچھ جرائم کے مرتکب ہوئے اور اس ملک کے قوانین کے مطابق ان کا محاکمہ بھی ہوگیا اور اس جرم کی مقررہ سزا بھی گذار لی ہے، اس کے بعد وہ ایران پلٹ آئے لہٰذا آپ فرمائیں :الف : ان جرائم میں جو قصاص کا باعث ہوتے ہیں، اولیاء دم کی درخواست کی صورت میں سزا کے قابل ہیں؟ب : جرائم حدّی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ج : تعذیری اور روک تھام والے جرائم میں کیا حکم ہے؟

جواب : ان موراد میں جو قصاص کا سبب بنتے ہیں ، اگر شاکی قصاص کا تقاضا کرے تو قصاص جاری ہوگا اور اگر شاکی قصاص کے بدلے جرمانہ پر راضی ہوگیا تھا تو قصاص کا حکم ساقط ہے اور اگر راضی نہیں ہوا تھا تو جرمانے کی رقم کو واپس کرکے قصاص کا تقاضا کرسکتا ہے ۔جواب : حدود والے جرائم میں حد ساقط نہیں ہوگی؛ کیوں کہ ان میں حد کے جاری کرنے کے شرائط نہیں پائے جاتے لہٰذاوہ حد کے قائل نہیں ہیں۔جواب : اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ تعزیر نظر حاکم سے مربوط ہے اگر وہاں پر ان کو تعذیر کردیا گیا تھا ہر چند کہ تعذیر، زندان کی صورت میں تھی تو حاکم شرع یہاں کی تعذیر میں تخفےف دے سکتا ہے، چاہے تعذیر ملامت اور سرزنش کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔

عصر حاضر میں زنا اور لواط کی حد میں تغیر

ان موارد میں جہاں شارع مقدس نے سزاؤں کے اجرا کے لئے ایک خاص طریقہ یا خاص آلہ معین فرمایا ہے جیسے رجم (سنگسار) یا تلوار سے قتل کرنا، تو آپ فرمائیں:۱۔ کیا مذکورہ طریقہ یا آلہ موضوعیت رکھتا ہے؟ بعبارت دیگر کیا اس طرح کے موارد میں شارع کا مقصد فقط مجرم کو ختم کرنا ہے، چاہے وہ جدید آلات ہی کیوں نہ ہو، یا اس کام کو مخصوص طریقہ اور آلے سے انجام دینا ضرور ی ہے؟۲۔ موضوعیت رکھنے کی صورت میں ، چنانچہ سنگسار کرنا یا ایسی سزئیں جیسے لواط کی حد کو منصوص طریقوں سے، خاص شرائط اور حالات میں اسلام اور اسلامی حکومت کی مصلحت میں نہ ہو (مثلاً اسلام ومسلمین کی توہین کا سبب بنے یا اسلام اور اسلامی حکومت کا چہرہ ، خشونت آمیز دکھلائے) کیا اصل حکم کو جاری کرتے وقت اجرا کے خاص طریقے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

جواب: دلیلوں کا ظاہر موضوعیت رکھتا ہے؛ لیکن عناوین ثانویہ کی وجہ سے ان (طریقوں) کو تبدیل جاسکتا ہے اور ہمارے زمانے کے بہت سے حالات میں ، رجم یا حد لواط کے طریقہ اجرا کا انتخاب کرنا مشکل ہے۔

عدالت میں اعتراف کرنے کے لئے زانی کو حاضر کرنا

برای مہربانی درج ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:الف) کیا زناکے ملزم کو، اعتراف کرنے کے لئے، عدالت میں لانا جائز ہے؟ب) جائز ہونے کی صورت میں کیا قاضی کو اجازت ہے کہ ملزم کو یہ سمجھائے کہ اس کا جرم کیا ہے؟ج) دوسرے سوال کے جائز ہونے اور ملزم کے قبول کرنے کی صورت میں، کیا سمجھانے کے ذریعہ قبول جرم کرنا، اقرار کی حیثیت رکھتا ہو، یا یہ کہ اقرار کرے اور اس عمل (بد) کی صراحت بیانی، کو موضوعیت حاصل ہے، نیز ایک بار اقرار کی صورت میں، کیا متعدد بار اور متعدد نشستوں میں، سوال کو دہرانا، لازم یا جائز ہے؟د) کیا ملزم کی خاموشی سے اس کا انکار، ظاہر ہوتا ہے؟

جواب: الف) زنا کے ملزم کو عدالت میں حاضر نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ عدالت میں جاکر پہلے گواہ ، گواہی دیدں، یا یہ کہ جبراً اور زور زبردستی زنا کیا گیا ہو اور وہ عورت جس سے زنا کیا گیا ہے، عدالت میں شکایت کرے یا ملزم کچھ دوسرے جرائم کا مرتکب ہوا ہو جیسے پرائی عورت کے ساتھ خلوت، کہ اس طرح کے جرم کی وجہ سے عدالت میں حاضر کیا جائے ۔جواب: ب) گذشتہ جواب سے اس کا جواب بھی معلوم ہوگیا ہے ۔جواب: ج) اقرار صاف وشفاف ہونا چاہیے اور اقرار کے لئے، قاضی کے اصرار کرنے کی کوئی وجہ اورحیثیت نہیں ہے ۔جواب: د) خاموشی سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی اور اس طرح کے موقعہ پر، انکار لازم نہیں ہے بلکہ اقرار ہونا چاہیے ۔

حکومتی ادارات وغیرہ سے چوری

تقریباً تین سال پہلے (جہالت اور برے ساتھیوں کی صحبت کے نتیجہ میں) میں نے میونسپلٹی کی ملکیت چند کیبل (بجلی کے تار) چرا کر فروخت کردیئے اب اگر میں ان کی قیمت ادا کرنا چاہوں تو:الف) کس شخص یا کس محکمہ کو ادا کروں جو کہ لازم ہو؟ب) اس مورد میں کہ جب میرے سامنے، میونسپلٹی یا کسی شخص سے (ان چیزوں کو اپنے لئے) حلال کرانے یا کسی خاص آدمی کو راضی کرنا ضروری ہے؟ج) اس زمانے میں، ایک کیلو کیبل (تار) کی قیمت چالیس تومان تھی جبکہ اس وقت اس کی قیمت ۱۲۰ تومان ہے، اس صورت میں اب میں کونسی قیمت ادا کروں؟د) ہم تین آدمی تھے (البتہ رقم ہم دولوگوں کے درمیان تقسیم ہوئی) اب میں تمام تاروں کی قیمت ادا کروں یا یہ کہ ان سب کا وزن جوڑکر اس کے آدھے وزن کی قیمت ادا کروں؟ھ) ان کیبلوں (تاروں) کا صحیح وزن مجھے یاد نہیں رہا ہے، اس صورت میں ان کی قیمت کیسے ادا کروں؟

تم اس رقم کو میونسپلٹی کی آمدنی سے متعلق بینک کے کھاتہ میں ڈال سکتے ہو، اور اس کی موجودہ قیمت دینا ضروری ہے اور اگر دوسرے اپنا حصہ ادا نہ کریں تو تمام رقم کے ضامن اور ذمہ دار تم ہو، ہاں یہ کام انجام دینے کے بعد پھر کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، تمھیں بارگاہ الٰہی میں توبہ کرنی چاہیے اور قیمت کی مقدار میں شک ہونے کی صورت میں، اسی مقدار کے لحاظ سے، احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔

خود مجرم کا حد جاری کرنا

کیا زناءِ محصنہ اور لواط کرنے والا خود کو قتل کرسکتا ہے؟

حاکم شرع کے حکم کے ذریعہ ہی سزا دی جانی چاہیے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ گناہ گار، حاکم شرع کے پاس جاکر اپنے گناہ کا اعتراف کرے بلکہ فوراً توبہ کرسکتا ہے اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنے ماضی کی کسر پوری کرسکتا ہے اور اس طرح سے خود کو سزا سے بچا سکتا ہے ۔

حدود (سزاؤں) کے سلسلے میں پہلی اصل (پہلا قاعدہ و قانون)

حدود (سزاؤں) کے باب میں، اصل قاعدہ و قانون کیا ہے؟ اور اگر سزا کے ساقط ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تب کیا کرنا چاہیے؟

حدود کے باب میں، کسی بھی سزا کے ثابت ہونے کے بعد، اصل قانون وقاعدہ یہ ہے کہ وہ سزا ساقط نہیں ہوگی بلکہ باقی رہے گی، اور یہاں پر اصل قانون وقاعدہ سے مراد، دلیلوں کے اطلاق ہیں جو کہتے ہیں کہ فلاں سزا دی جانی چاہیے، خواہ وہ شخص انکار کرے یا نہ کرے، فرار ہوجائے یا فرار نہ ہو، البتہ قاعدہ استصحاب کا تقاضا بھی سزا کا باقی رہنا ہی ہے، (اگر ہم قاعدہ استصحاب کو شبہہ حکمیہ میں جاری کرنا ، صحیح سمجھتے ہوں) اس بناپر جب تک کوئی دلیل سزا کے ساقط ہونے پر قائم نہ ہوجائے، اس وقت تک سزا کا حکم باقی رہے گااور اس کو سزا ملنا چاہیے، نتیجہ میں ان تمام موقعوں پر جہاں قاضی کا علم حجّت ہوتا ہے، سزا کا حکم جاری ہوناچاہیے، اس لئے کہ امام کے معاف کرنے، یا اقرار کے بعد انکار کرنے یا اقرار کے بعد فرار کرنے کے ذریعہ سزا کے ختم ہونے کی دلیلیں، مقام گفتگو کو شامل نہیں ہیں، مگر یہ کہ حاکم کے علم کا سرچشمہ اور بنیاد، غیر صریح اقرار یا اقرار کے ملزومات جیسی چیزیں رہی ہوں، کہ اس صورت میں انکار یا اقرار یا حاکم کے معاف کرنے کے بعد، سزا کا اجرا کرنا مشکل ہے اور کم سے کم ”تدراٴ الحدود بالشبہات“ میں شامل ہے ۔

غیر مسلم مجرموں سے برتاؤ کا طریقہ

کیا غیر مسلم مجروموں کو اسلامی احکام کے مطابق سزا دی جائے گی یا ان کے مذہب کے مطابق؟ دوسری صورت میں (یعنی اگر ان کو ان کے مذہب کے مطابق سزا دی جائے گی) سزا دینے والا قاضی مسلمان ہوگا یا ان کا اپنا (ہم مذہب) قاضی؟

جو چیز سورہٴ مائدہ کی بیالیسویں آیہٴ شریفہ سے استفادہ ہوتی ہے اور باب حدود اور جہاد میں ہمارے مجتہدین کے فتوے بھی اس کی تائید کرتے ہیں نیز متعدد روایتیں بھی اس پر دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ: مسلمان قاضی کے سامنے فقط دو راستے ہیں، پہلا راستہ یہ ہے کہ اگر وہ درخواست کریں تو اسلامی احکام کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ انہیں ان کے قاضیوں کے پاس بھیج دیا جائے تا کہ ان کے مذہب کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے ، اب رہی یہ بات کہ مسلمان قاضی ان کے مذہب کے مطابق، جو ہمارے عقیدہ کے مطابق تحریف شدہ اور منسوخ شدہ مذہب ہے، فیصلہ کرے اور اسی کو صحیح سمجھے تو اس طرح کی کوئی چیز نہ تو دلیلوں ہی سے استفادہ ہوتی ہے اور نہ ہی بزرگوں کے فتووٴں سے ثابت ہے، مذکورہ مشکل سے بچنے کے لئے جو آپ نے بیان کی ہے، فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان ہی میں سے کوئی نیک قاضی ان کے مذہب کے احکام کے مطابق لیکن اسلامی حکومت کے زیر نظر، فیصلہ کرے، اور مزید دقّت کی مراعات اور عدالت وانصاف قائم کرنے کے لئے، پہلے ان کے مذہب کے احکام، ماہرین سے استفادہ کرکے، قانون کی شکل میں پاس کئے جائیںاور بعض موارد (شخصی حالات) کے ذیل میں، ترتیب دیئے جائیں تاکہ کسی طرح سے بھی ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔

حاملہ عورت کی تعزیر اور حد

اگر کسی بیمار کے اوپر حد (سزا) ثابت اور واجب ہوجائےکیا اس صورت میں اسّی (۸۰) باریک لکڑیوں کو ایک ساتھ ملاکر ایک مرتبہ میں اس بیمار کے بدن پر ماری جاسکتی ہیں؟ جواب کے مثبت ہونے کی صورت میں کیا تعزیر (غیر معیّن سزا) کا بھی یہی حکم ہے؟ اس تمہید کو پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوال کا جواب مرحمت فرمائیں: کسی خاتون نے شادی سے پہلے کے زمانے میں کوئی ایسا کام کیا تھا جس کا حکم تعزیر تھا اور اب شادی کے بعد جبکہ وہ حاملہ ہوگئی ہے اور اس کا شوہر بھی اُس کے اس کام (جرم) سے آگاہ نہیں تھا، اس کا جرم ثابت ہوگیا ہے، لہٰذا یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اس وقت وہ بیمار ہے اور حاملہ ہے نیز یہ کہ اگر اسے تعزیر اور سزا دی جائے تو اس کے شوہر کو پتہ چل جائے گا اور ممکن ہے اُسے طلاق دیدے یا دیگر مشکلات پیش آئیں، کیا اس صورتحال میں تیس (۳۰) باریک لکڑیاں ایک ساتھ ملاکر تعزیر کے عنوان سے ایک مرتبہ میں اس کے بدن پر ماری جاسکتی ہیں؟

بیمار کے سلسلہ میں تو، حد (سزا) کی تعداد کے مطابق لکڑیوں کو ایک ساتھ ملاکر ایک بار ہی اس کے بدن پر ماری جاسکتی ہیں لیکن حاملہ عورت کو وضع حمل کے بعد سزا دی جائے گی، البتہ تعزیر (غیر معین سزا) کی صورت میں چند کوڑوں پر اکتفا کی جاسکتی ہے اور تعزیر کوڑوں کی سزا ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس طرح کے موقعوں پر سرزنش کرنے یا نصیحت کرنے پر بھی اکتفا کی جاسکتی ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کے اس میں نصیحت وغیرہ کے اثر کرنے کی امید ہو ۔

اللہ کی حدود جاری کرنے والا

افغانستان کے موجودہ حالات میں الله کے احکام اور حدود کے جاری کرنے کی ذمہ داری کن لوگوں کے اوپر ہے؟

ہر وہ عادل مجتہد جو اس علاقہ میں موجود ہے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور مجتہد کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی عادل عالم جو جامع الشرائط مجتہد کی جانب سے نمائندگی گررہا ہو، حدود الٰہی کو جاری کرسکتا ہے

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت