سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

خاص زمانہ میںکسی چیز کا مالک ہونا

مقدس شہر میں کوئی مکان، سال کے خاص موسم یا مخصوص مہینوں کے لئے فروخت کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر وہ مکان اس ترتیب کے ساتھ چار لوگوں کو فروخت کیا جاتا ہے کہ بہار کے موسم میں (الف) کے لئے، گرمی کے موسم میں (ب) کے لئے، خزاں کے موسم میں (ج) کے لئے اور سردی کے موسم میں (د) کے لئے ہوگا اور ہر سال مذکورہ اشخاص، ان ہی موسموں میں اس مکان کے مالک ہوں گے، یہاں پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ گفتگو یہ نہیں ہے کہ ملکیت سب کی مشترک ہے اور مصالحت کرکے زمانے کے لحاظ سے آپس میں تقسیم کرلیا ہے یہ بات نہیں ہے بلکہ مخصوص زمانے میں اسی مکان کے مالک ہونے کی بات ہے اب آپ مذکورہ فرض میں ان سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف۔ دلیلوں کے اطلاق اور عمومات منجملہ : ”اوفوا بالعقود“، ”المومنون عن شروطھم“، احل اللّٰہ البیع“، تجارة عن تراض“ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا اس قسم کی خرید وفروخت صحیح ہے؟ب) کیا ہر زمانے اور ہر موسم میں مالکیت کا باقی رہنا معاملہٴ خریدوفروخت کا تقاضا اور اس کا ہی حصّہ ہے؟ج) کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس قسم کا معاملہ (خرید وفروخت) عقلاء (بماھم عقلاء) کی بنیاد پر قائم ہو تو ہر زمانے میں اس کے حلال وجائز ہونے کے لئے ایک قسم کی شارع مقدس کی اجازت ضروری ہے؟د) اگر سوال نمبر الف اور ب کا جواب مثبت ہے تب مالک کے اپنے مال پر مسلط ہونے کی توجیہ کس طرح کی جائے گی؟ مزید وضاحت یہ کہ چونکہ دوسروں کا حق ہونا، مال پر تصرف کے محدود ہونے کا تقاضا مند ہے تب اس صورت میںقاعدہٴ ”الناس مسلطون علیٰ اٴموالھم“ کی کیسے توجیہہ کی جائے گی؟

جب اس طرح کا کوئی معاملہ کسی علاقہ میں رائج ہوجائے اور عقلاء کے معاملات کا حصّہ بن جائے تو اس معاملہ کے صحیح ہونے کو ان دلیلوں سے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، ثابتکیا جاسکتا ہے اور زمانے کے لحاظ سے مالکیت کے محدود ہونے سے کوئی مشکل وجود میں نہیں آتی ۔

متولی کی اجازت کے بغیر مسجد کو نئے سرے سے بنانا

معیّن متولی کے ہوتے ہوئے کچھ خیّر افراد نے بغیر متولی کی اجازت کے مسجد کو دوبارہ تعمیر کرادیا ہے، اس مسجد کی نئی عمارت میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

ایسے موقعوں پر محترم متولی کی اجازت سے کام کرنا چاہیے؛ لیکن اگر اس کی اجازت کے بغیر کام انجام پایا ہے تو مسجد میں نماز پڑھنا یہاں تک کہ مسجد کی نئی عمارتوں میں بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

اقسام: مسجد

معاملہ کے حق فسخ کی شرط

معمولہ قول ناموں میں یعنی سرکاری اور قانونی معاملہ سے پہلے معاملہ کرنے والے دونوں حضرات کے درمیان رائج ہے کہ کچھ مبلغ رقم کو معاملہ کو فسخ کرنے کے حق کی بابت شرط کی جائے الف: کیا اسلام کی مقدس شریعت کے لحاظ سے یہ شرط صحیح ہے ؟ب: دونوں میں سے جو بھیمعاملہ کو توڑے گا دوسرا شخص فسخ کرنے کے حق کی بابت جو رقم رکھی گئی تھی اسا رقم کو فسخ کرنے والے سے لے سکتا ہے ؟ج: کیا اس رقم کے قولنامے شرعی اور یقینی معاملات کا درجہ رکھتے ہیں اور شریعت کے لحاظ سے یہ سب کچھ صحیح ہے اور معاملہ کرنے والے دونوں پر اس کی مراعات کرنا ضروری ہے ؟

جواب ۔الف: جب معاملہ قطعی و یقینی ہو گیا ہو اور یہ شرط طے پائی ہو کہ دونوں کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فلاں مقدار میں رقم ادا کریں یہ شرط صحیح ہے لیکن اگر قطعی طور پر معاملہ یعنی خرید و فروخت نہیں ہو ئی ہے تو مذکورہ رقم کو لینا جائز نہیں ہے جواب ۔ب: مندرجہ بالا جواب سے معلوم ہو گیا جواب۔ج: قولنامے مختلف ہیں بعض میں صراحت ہوتی ہے کہ خریداری قطعی طور پر انجام پا چکی ہے اور بعض قل نامے ایسے نہیں ہیں ہر قولنامے کا اپنا مخسوص حکم ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہو گیا ہے

گاؤں والوں کا کچھ خاص قوانین بنانا

معمولاً دیہاتوں میں لوگ نظم و ضبط کی حفاظت کے لئے کچھ قوانین بنا تے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مویشیوں کو دوسری کی زمین یا کھیتوں میں چرائے اور دوسرے کی کھیتی کو نقصان پہنچائے تو مویشیوں کے ما لکان سے جرمانے کے طور پر ایک معین رقم وصولتے ہیں، مالک کے جرمانے کو ادا نہ کرنے کی صورت میں اسی جانور کو باندھ لیتے ہیں جس نے نقصان پہچایا ہے، چنانچہ تین مالک دن کے اندر جرمانہ ادا نہ کرے تو اس کو بیچ کر جرمانہ کی رقم اس میں سے لے لیتے ہیں اور باقی دیہات کی عمومی ضرورت میں خرچ کرتے ہیں، لہٰذا حضور فرمائیں:اولاً: کیا ایسے موارد میں ایسے قوانین کا بنانا جائز ہے؟ثانیاً: جائز ہونے کی صورت میں، کیا ایک ہزار تومان جریمہ کی خاطر، مالک کے جریمہ دینے کی صورت میں اس جانور کو بیچا جاسکتا اور اس کے پورے پیسے کو گاؤں کی عمومی ضرورتوں میں خرچ کیا جاسکتا ہے؟ البتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ اگر ایسی جگہوں میں نظم اور قوانین نہ بنائیں جائیں تو پورا گاؤں حرج و مرج کا شکار، اور کمزوروں یتیموں اور بے سر پرستوں کا حق پائمال ہوجائے گا ۔

اگر ایسی جگہوں میں نظام کی حفاظت ایسے قوانین پر موقوف ہوتو پھر کوئی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ مجتہد یا ایسے شخص کی زیر نظر ہو جو اس کی طرف سے ماذون ہو اور یہ کام شریعت کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے انجام پائے ۔ اور جرمانے کے حاصل کرنے کی صورت میں، عدالت سے کام لیا جائے اور اضافی پیسے کو اس کے مالک کو پلٹا یا جائے ۔

طرفین معاملہ کی جانب سے معاملہ کو پکّا کرنے کی غرض سے کچھ رقم معیّن کرنا کہ جو معاہدہ پورا نہ کرے گا مذکورہ رقم ادا کرے گا

معمول ہے کہ بعض معاہدوں میں (معاہدہ کو مضبوط کرنے کی غرض سے) کچھ رقم، معاہدے کو پکّا اور لازمی کرنے کے لئے، طرفین معاملہ سے منظور کی جاتی ہے تاکہ اگر معاہدہ کرنے والا کوئی ایک آدمی معاہدے سے پھر جائے یا معاہدہ کو پورا کرنے میں دیر کرے تو مذکورہ رقم دوسرے فریق کو ادا کرے مثال کے طور پر خرید وفروخت کے معاملہ میں، شرط کی جاتی ہے کہ اگر مالک (بیچنے والا) اپنی چیز کو سرکاری طریقہ سے خریدار کے حوالہ (نام) نہ کرے گا تو دس لاکھ تومان خریدار کو دے گا ، یا عمارت بنانے کے معاہدے میں طے ہوجاتا ہے کہ اگر ٹھیکیدار مقررہ وقت پر عمارت بناکر نہیں دے گاتو ہر مہینہ کی تاخیر کے حساب سے ایک لاکھ تومان ادا کرے گا، یعنی معاہدہ کرنے والے طرفین ہی پہلے سے نقصان کی مقدار کو فرض کرلیتے ہیں، حالانکہ ممکن ہے کہ واقعی نقصان مذکورہ رقم سے کم یا زیادہ ہو، یا حقیقت میں بالکل نقصان ہی نہ ہو، یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ایران کے قانون کی دفعہ ۱۰ اور ۲۳۰ کے مطابق اس طرح کی شرط کرنا ممکن ہے، برائے مہربانی اس سلسلہ میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنیات فرمائیں:الف)۔اس کی شرعی حقیقت کیا ہے؟ب)۔ شرط کے جائز ہونے کی صورت میں، اگر معاہدے کو انجام دینے کا انتخاب، یا معاہدہ کرنے والے کومعاہدے کو لازم کرنے کی غرض سے کچھ رقم دی جائے یعنی طے ہوجائے کہ وہ اپنی تشخیص کے مطابق یا تو معاہدے کو پورا کرے یا پھر اس کے بجائے اتنی رقم کو ادا کرے، کیا یہ کام معاملہ کے مردد ہونے باعث ہوگا، کیا نتیجةً عقد معاملہ باطل نہیں ہوگا؟ج)۔ اگر ٹھیکیدار عقد معاملہ کے ذیل میں طے کرے کہ اگر معاہدہ کو انجام نہ دے یا اس کے انجام دینے میں تاخیر کرے یہاں تک کہ یہ بات تیسرے شخص سے منسوب ہو، تب بھی اس رقم کو بذات خود ادا کرے (یعنی مطلق طور پر ضامن ہو) اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟د)۔ اگر عقد معاملہ میں شرط کی جائے کہ معاہدہ کرنے والے کے معاہدہ کو چھوڑنے کی صورت میں اس پرلازم ہے کہ معاہدہ کو بھی انجام دے اور بیعانہ کی رقم بھی ادا کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ھ)۔ اگر معاہدے کے وقت کے حالات کی وجہ سے ٹھیکیدار، معاہدے کو انجام دینے سے معذور ہو یعنی اس معاہدے کو انجام دینا اس کے لئے ناممکن تو نہیں ہے لیکن سخت اور طافت فرسا کام ہو، کیا اس صورت میں بھی، انجام نہ دینے یا تاخیر کرنے کی حالت میں بیعانہ کی رقم ادا کرے گا؟ نیز کیا اس صورت میں بیعانہ کی رقم میں حاکم نرمی اختیار کرسکتا ہے؟

اس کا شرعی جواز دوطریقوں سے ممکن ہے؛ پہلا طریقہ یہ ہے کہ خلاف ورزی، فسخ کرنے کے حق کا باعث ہوتی ہے، لیکن فسخ کرنے کا اختیار مشروط ہے کہ فلاں مبلغ رقم، گھاٹے کے عنوان سے ادا کیا جائے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاملہ، فسخ نہ ہو یا دیر سے انجام پائے اور پہلے سے نقصان کی پیشنگوئی کا عقد معاملہ میں شرط کے عنوان سے ذکر کیا جائے ان دونوں صورتوں میں اس رقم کا وصول کرنا جائز ہے ۔ب: یہ کام معاملہ کے مردد ہونے کا باعث نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاملہ کوفسخ کرے تو اس حق کے عوض فلاں رقم ادا کرے ۔ج: مذکورہ دونوں فرضوں میں، تاخیر کے سبب اور نقصان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔د: اگر شرط، تاخیر سے مربوط ہو تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ه: اگر شرط مطلق تھی اور عام لوگوں کو فہم کے مطابق تھی تب تواس صورت کو بھی شامل ہوگی اور اسی کے اوپر عمل کیا جائے گا ۔

اقسام: نبوت
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت