سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

معتبر اور غیر معتبر دعا لکھنے والوں کے درمیان تشخیص کی راہ

بہت سے لوگ دعا لکھنے کے بہانے دھوکہ بازی کرتے ہیں، اس لئے کہ تشخیص دیں کہ کون لوگ دھوکہ باز ہیں اور کون لوگ اسلام کے دستور کے مطابق دعا لکھ رہے ہیں،اس کے کیا راستے ہیں؟

اگر مذکورہ افراد پڑھے لکھے اور باتقویٰ لوگ ہوں اور معتبر کتب سے استفادہ کرتے ہوں تو ان کی دعا نویسی صحیح ہے، اس کے علاوہ اُن پر اعتقاد نہیں کیا جاسکتا ۔

اقسام: دعا

قتل کے خوف سے ناجائز بچے کا ساقط کرانا

ایک لڑکی زنا سے حاملہ ہوئی ہے ۔ گھر والوں کے مطلع ہوجانے کی صورت میں لڑکی کے قتل کا خطرہ ہے ۔ کیا وہ سقط جنین کرسکتی ہے ؟ اس کی دیت کیا ہے ؟

جواب: جبکہ واقعاً اس کی جان کو خطرہ ہو اور بچہ بھی چار مہینے سے کم کا ہو تو سقط جنین جائز ہے اور اس کی دیت بیت المال کو ادا کرے گی ۔

ڈاکٹر کا بعد میں پیش آنے والے ناقص حمل کی خبر دینا

اگر ڈاکٹر قطعی طور پر یہ کہ دے کہ آپ کے آئندہ بچے ناقص الخلقت ہوں گے تو مندرجہ ذیل سوالوں کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا ڈاکٹر پر واجب ہے کہ وہ والدین کے سوال کرنے پر انہیں پوری اطلاع فراہم کرے؟ب: اگر وہ سوال نہ کریں تو کیا تب بھی ڈاکٹر کے لیے انہیں بتانا واجب ہے تاکہ وہ پرہیز کر سکیں اور اگر اس پر واجب نہیں ہے تو کیا اس کے لیے بتانا حرام ہے؟ج: اگر ڈاکٹر کو یقین ہو کہ وہ بتانے کی صورت میں ہر بار بچہ سقط کرا دیں گے تو یہاں پر اس کا کیا شرعی فریضہ ہے؟

جواب: الف۔ ڈاکٹر کے لیے بتانا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ نہ بتانے سے مریض کو کوئی بہت بڑا نقصان پہچ سکتا ہو۔ب: اس طرح کے موارد میں اگر مسئلہ نہایت اہم ہو تو ڈاکٹر کو چھپانا نہیں چاہیے ۔ج: ڈاکٹر کو اپنے شرعی فریضے پر عمل کرنا چاہیے اور اگر مریض خلاف ورزی کر رہا ہے تو ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہے ۔ البتہ ڈاکٹر اپنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل کرے گا ۔

نا بالغ بچہ سے خریداری کرنا

حضرت عالی کی توضیح المسائل مسئلہ نمبر ۱۷۷۶ پر توجّہ رکھتے ہوئے فروخت کرنے والے شخص کے بالغ ہونے کے سلسلہ میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سڑک کے کنارے یا بس اڈّوں وغیرہ پر بچّہ سگریٹ،ٹافی وغیرہ بیچتے ہیں کیا ان سے خریدا جا سکتا ہے؟جواب کے منفی پونے کی صورت میں آ بتائیں کہ اگر کوئی شخص (مسئلہ ) نہ جاننے کی صورت میں خرید لے تو اسکا کیا وظیفہ ہے ؟

جواب۔دو صورتوں میں اشکال نہیں ہے :پہلی صورت ےہ ہے کہ معاملہ کرنے (بیچنے )والا شخص حقیقت میں بچّہ کا ولی ہو اور بچّہ چیز پہونچانے یا قیمت کی رقم لانے کا ذریعہ ہو ۔ دوسری صورت ےہ ہے کہ معاملہ کرنے والا خود خود بچّہ ہو لیکن ہمیں ےقین ہو کہ ےہ کام (معاملہ خرید و فروخت)اسکے ولی کی مرضی سے انجام پا رہا ہے اس صورت میں اس طرح کی چیزوں میں تصرّف کرنا شرعا جائز ہے۔

اس مجروح کی دیت کہ جس کا خطا کار فوت ہوگیا ہو

ایک ایکسیڈینٹ کی وجہ سے میرا بایاں پاؤں اور دایاں ہاتھ ٹوٹ گیا ہے، ایک سال سے گھر میں بیٹھا ہوں، کیونکہ پاؤں میں گھٹنے کے حصے میں پلاٹینم کی راڈ ڈالنے کی وجہ سے پاؤں مڑتا نہیں ہے اور ہاتھ میں بھی پلاٹینم کی راڈ پڑنے کی وجہ سے میری انگلیاں حرکت نہیں کرتیں، طبیب حضرات کہتے ہیں کہ دو سال تک پلاٹینم کی راڈیں میرے بدن میں رہنا چاہیے ، جس شخص نے میرا ایکسیڈینٹ کیا ہے وہ فوت ہوچکا ہے ٹریفک پولیس کے ماہرین نے اسی کو خطاوار ٹھہرایا تھا، لہٰذا حضور فرمائیں:۱۔ کیا فوت ہوجانے والا شخص ضامن ہے؟۲۔ اگر مرنے والے کے پاس کوئی جائداد یا میراث ہوتو کیا وارثین اس کو دیت کے عنوان سے ادا کرسکتے ہیں؟۳۔ کیا وارثین بھی ضامن ہیں؟۴۔ میرے نقصانات کی کیا مقدار ہے؟۵۔ دیت کے علاوہ اب تک جو پیسہ میں خرچ کرچکا ہوں کیا اس کو بھی لے سکتا ہوں؟

ایک سے لے کر ۵/ تک : اگر ٹریفک پولیس کے متدین اور قابل وثوق ماہرین کی تشخیص کے مطابق مرنے والا ہی خطاوار تھا تو پاؤں کے ٹوٹنے کی دیت اس کے ترکہ سے ادا کریں اور اگر علاج کا ضروری خرچ دیت سے زیادہ ہو تو وہ بھی ادا کریں اور اگر مرنے والے کے پاس کوئی مال نہیں تھا تو آپ کی نسبت اس کے وارثین پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، مفلوج ہونے کی دیت اُس عضو کا ۳/۱ ہوتا ہے لہٰذا اگر ۸۰/ فیصدفلج ہوا ہے ، اسی نسبت سے حساب لگایا جائے گا اور اگر قلج برطرف ہوجائے تو اس کی کوئی دیت نہیں ہے ، بلکہ ارش ہے کہ جو متدین اور آگاہ ماہرین کے ذریعہ معین ہوگا۔

اسلامی نظام کی مصلحت کا خاطر خبرنگار کا جھوٹ بولنا

امام خمینی رحمة الله علیہ فرماتے تھے: ”کبھی کبھی نظام کی حفاظت کے لئے بعض واجبات کو بھی ترک کیا جاسکتا ہے“ کیا یہ موضوع خبر کے سلسلے میں بھی صادق ہے؟ کیا خبر نگار بھی نظام کی حفاظت میں جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے؟

اگر واقعاً کوئی مسئلہ اہم اور مہم کی صورت اختیار کرلے اور جھوٹ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے مانند ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن چونکہ ممکن ہے کہ یہ حکم سوء استفادہ کا ذریعہ بن جائے اور خبرنگار کسی نہ کسی بہانے سے جھوٹی خبروں کو منتشر کریں، لہٰذا حتی الامکان اس کام سے پرہیز کیا جائے ۔

اقسام: جهوٹ بولنا
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت