کارخانوں سے پھیلنے والی آلودگی کا ازالہ۔
ایسی صنعتیں جو انسانی زندگی میں آلودگی کا سبب بنیں ہیں کیسے بری الذمہ ہو سکتی ہیں؟
ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ جتنا انہوں نے آلودگی پھیلانے کی راہ میں کوشش کی تھی اتنی ہی اسے صاف اور پاک کرنے میں کوشش کریں۔
ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ جتنا انہوں نے آلودگی پھیلانے کی راہ میں کوشش کی تھی اتنی ہی اسے صاف اور پاک کرنے میں کوشش کریں۔
ہر اس چیز کا استعمال جو مفید اور بے خطر جانداروں کی جان کو خطرہ میں ڈالے، اشکال سے خالی نہیں ہے۔
اسرائیل کی غاصب حکومت کو کسی بھی طرح سے تقویت پہچانا حرام ہے۔
اگر وہ محاربین (جنگ کرنے والے) اہل کتاب میں سے ہیں تو کسانوں کے لیے وہ زمینیں جایز ہیں۔
اس طریقے کے کام مومنوں اور اسلام کے گرویدہ لوگوں کی شایان شان نہیں ہیں ۔
جواب: اگر اس پر کوئی علامت یا نشانی نہیں ہے تو اس کو اپنی ملکیت بنا سکتاہے اور اگر اس پر کوئی نشانی ہے اور اس کو اس کے اصل مالک تک پہونچانا ممکن ہے تو اسے چاہئیے کہ اس کے مالک کو دیدے لیکن ان ممالک میں جہاں اسلام کے ساتھ جنگ ہو رہی ہے اس چیز کو اپنی ملکیت بنانے میں ہر حال میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
اس قسم کے ٹور، دشمنان اسلام کی تقویت کا سبب اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کا باعث ہوتے ہیں، لہٰذا یہ کام کسی مسلمان کے لئے بھی جائز نہیں-
اگر کفر اور گناہ سے محفوظ ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ”تعرّب بعد الہجرة“ کا مصداق نہیں ہے خصوصاً اس صورت میں کہ جب آہستہ آہستہ اپنے قول اور فعل سے وہاں پر اسلام کی تبلیغ کرسکتا ہو ۔
مسئلہ کے فرض میں، سفر کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے ۔
اگر ضروری ہو اور وہاں کے حرام رسم ورواج سے ، متاٴثر نہ ہو، تب کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مسلمانوں کے مغز متفکر، اُن کے ماہر اور متخصص اشخاص کو اسلامی ممالک کی خدمت کرنی چاہیے لیکن ضروری مواقع پر اگر کفار کی تقویت کا باعث اور مسلمانوں کی کمزوری کا سبب نہ بنیں اور ان کے حرام رسم ورواج سے متاٴثر نہ ہوں تب کوئی اشکال نہیںہے اور اگر اپنے قول وفعل سے ان علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کرسکے تو بہت اچھا ہوگا ۔
اگر وہاں پر جانے سے، اس کے دین، عقیدے اور اخلاق کو چوٹ لگتی ہے تب اس کے لئے مخالفت کرنا جائز ہے ۔
فقط امکان اور احتمال کافی نہیں ہے، مگر یہ کہ قوی امکان ہو اور اس طرح کے مسائل میں جو تبلیغ اسلام سے مربوط ہیں، وسوسہ نہیں کرنا چاہیے