گواہی پر گواہی
کیا گواہی کے اوپر گواہی قابل قبول ہے؟
جواب: حق الناس کے بارے میں ، گواہی پر گواہی قابل قبول ہے ۔
جواب: حق الناس کے بارے میں ، گواہی پر گواہی قابل قبول ہے ۔
جہاں پر ضرورت ہو اور اس کے بغیر ضرورت برطرف بھی نہ ہوتی ہو تو ایسی جگہوں میں گناہ کو آشکار کیا جاسکتا ہے ۔
جب اس میں یہ قید لگائیں کہ یہ خبر گمان اور احتمال کی صورت میں ہے اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
جواب:۔ اگر منھ میں نہ آئے یا بے اختیار نگل لے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
جواب: صاحب حق کی موافقت سے، تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ہر شخص کے حصّہ کی مقدار وہی ہوگی جو اس مقام پر رائج اور مشہور ہے ۔
جواب:۔ اگر معمول اور، رواج کے مطابق ہو تو اس صورت میں کوئی مانع نہیں ہے .
جواب:۔ اگر معمول اور، رواج کے مطابق ہو تو اس صورت میں کوئی مانع نہیں ہے .
جواب: ایسی چیز کی اجازت دینا جائز نہیں ہے اور اگر پھر بھی وہ اجازت دے دے اور اس پر راضی ہو تب بھی قتل کو جواز کا سبب نہیں بنے گا ۔
مرد ،عورت ( ہونے والی بیوی ) کاوکیل ہوسکتا ہے اور صیغہ نکاح پڑھ سکتاہے اور اپنی جانب سے نکاح کو قبول کر سکتا ہے ، مثال کے طور پر یہ کہے : اپنی موکلہ فلاں خاتون کو ، فلاں مدت میں فلاں مہر پر اپنے متعہ میں لے لیا ، اس کے بعد کہے کہ میں نے قبول کیا ،اگر عربی میں پڑھ سکتا ہے تو عربی میں پڑھے اور اگر عربی میں نہیں پڑھ سکتا تو فارسی ( یعنی دوسری کسی زبان) میں پڑھے اور عورت بھی مرد کی طرف سے وکیل ہوسکتی ہے ۔
جائز نہیں ہے؛ مگر یہ کہ اس کام کے ترک کرنے کا ضرر زیادہ ہو، اگر یہ کام دوسروں کے قتل کی حد تک نہ پہنچے تو جائز ہے۔
معاملہ کی ضمنی شرط، کسی بھی صورت میں ہو کفایت کرتی ہے، بلکہ جس طرح اوپر ذکر ہوا ہے، بغیر شرط کے بھی کوپی کرنا جائز نہیں ہے ۔
وہ تمام افراد جن کی جان اور مال محترم ہے، ان کا حق امتیاز بھی محترم ہے ۔
جواب:۔ جب بھی احکام شریعت کی پابندی کی جائے اور اس میں کوئی خاص مفسدہ (گناہ) نہ پایا جائے تو کوئی ممانعت نہیں ہے .