سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

گواہوں کا اپنی گواہی سے پھر جانا

گواہوں کا اپنی گواہی سے پھر جانے کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب بھی وہ گواہ اپنی گواہی سے پھر جائیں، تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:الف) فیصلہ کا حکم جاری ہونے سے پہلے ایسا ہوا ہو: اس صورت میں مشہور یہ ہے کہ کوئی حکم جاری نہیں ہوگا ۔ب) حکم صادر ہونے اور مال (جس کے لئے دعویٰ دائر ہوا ہے) کے تلف ہونے کے بعد ایسا ہوا ہو: اس صورت میں مشہور قول یہ ہے کہ صادر شدہ حکم (فیصلہ) نافذ ہے اور گواہوں کو غرامت دینا ہوگی ۔ج) حکم کے صادر اور نافذ ہونے کے بعد لیکن مال کے تلف ہونے سے پہلے گواہ اپنی گواہی سے دست بردار ہوگئے ہوں: اس صورت میں اکثر مجتہدین نے، حکم کے نافذ اور گواہوں پر غرامت کا حکم کیا ہے ۔

ملزم کے اقرار اور گواہوں کی گواہی کے درمیان اختلاف

جب کبھی ملزم کا قتل کے مرتکب ہونے کا اقرار، شہود کی شہادت سے ٹکراجائے تو کیا حکم ہے؟

جواب: ولی دم کو اختیار ہے یا تو مورد شہادت کی بہ نسبت قصاص کرے یا مورد اقرار کی بہ نسبت ، اگر اس نے مورد شہادت کی بہ نسبت قصاص کیا ہے تو آدھی دیت شخص مورد شہادت کے اولیا کو ادا کرے، یہ مسئلہ منصوص اور مفتیٰ بہ ہے۔

گواہوں کی عدالت کے ثابت ہونے کا ضروری ہونا

کیا اسلامی قوانین میں اصل قاعدہ یہ ہے کہ عدالت میں آنے والا ہر گواہ، ہ عادل ہے؟ یا شاہد کی عدالت کا ثابت کرنا لازم ہے؟

جواب: شاہد کی عدالت کا ثابت کرنا لازم ہے؛ لیکن اسی کام کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کے ساتھ نشست وبرخاست رکھنے والا شخص اس سے کوئی غلط کام نہ دیکھے، اس طرح اس کی عدالت ثابت ہو جائے گی۔

گواہوں کی عدالت کے ثابت ہونے قانونی طریقہ

شاہد کو عادل ثابت کرنے کا قانونی طریقہ کیا ہے؟ اور مُذَکِّی کون ہے؟

جواب: قانونی طریقہ یہ ہے کہ مورد اعتماد شخص اس کے ساتھ معاشرت رکھتا ہو اور غلط کام بھی اس سے نہ دیکھتا ہو یا اپنے اردگرد کے افراد میں پاکیزہ اور صاحب تقویٰ شحص کی حیثیت سے معروف ہو، مذکی وہ مورد اعتماد شخص ہے جو ان امور کی کسی کے بارے میں خبر دے اور اس کی وثاقت وعدالت کی گواہی دے۔

ملزم کے قاتل نہ ہونے پر رشتہ داروں کی شہادت

قبائلی زندگی بسر کرنے والوں کے یہاں یہ رسم ورواج ہے کہ اگر ایک خاندان دوسرے خاندان کے ساتھ لڑائی جھگڑے کا قصد رکھتا ہے اور مدمقابل میں کسی کو قتل یا زخمی کرنا چاہتا ہے تو اپنے تمام اہل خاندان سے مشورہ اور ان کو اس ماجرے سے باخبر کرتا ہے ، اس کے بعد سب قسم کھاتے ہیں کہ اس طرح کا جرم انجام دیں گے ، اس بالا مقدمہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذیل کے سوال کا جواب عنایت فرمائیں:۱۔ مقتول کا سابقہ دشمنی کی وجہ سے کسی کے ساتھ اختلاف تھا، یہاں تک کہ پہلے چند مرتبہ، مقتول کے خاندان اور قاتلوں کے خاندان کے درمیان لڑائی کی وارداتیں ہوئی تھیں، نیر مقتول کو انھوں نے کئی مرتبہ مارا پیٹا اور دھمکیاں وغیرہ بھی دی تھیں، ایک رات مقابل گروہ کے دو آدمیوں نے اس کے گھر پر حملہ کیا اور اس کو اس کی بیوی اور چھوٹے بچوں کی نظروں کے سامنے قتل کرنے کے بعد ، فرار ہوگئے ! ابھی مقتول میں کچھ جان باقی تھی کہ اس کا چچا اس کے سرہانے حاضر ہوا، مقتول نے اپنے چچا سے کہا: ”فلاں شخص نے مجھے اسلحہ سے زخمی کیا ہے“ دوسری طرف سے قاتلین کے خاندان کے دو تین آدمیوں (بھائی اور چچاکے بیٹے) نے گواہی دی ہے کہ فلاں شخص نے یہ کام نہیں کیا ہے، کیا قاتل کے خاندان والوں کی گواہی جو قتل کے پلان میں شریک تھے اور غرض کے ساتھ گواہی دے رہے ہیں، قابل قبول ہے؟

جواب: ان کا یہ شہادت دینا کہ وہ قاتل نہیں ہے کوئی اثر نہیں رکھتا؛ ہرچند شہود یعنی گواہوں کو قتل کے کیس میں متہم نہیں ہونا چاہیے ، جبکہ اس مقام پر مفروضہ مسئلہ میں شہود متہم بھی ہیں، البتہ مقتول کی شہادت بھی کوئی اثر نہیں رکھتی، مگر یہ کہ قاضی کو مقتول اورمقتول کے عزیزو اقارب کی گواہی کہ جو موقعہ واردات پر حاضر تھے اور اسی طرح کے دوسرے قرائن کے ذریعہ علم ہوجا ئے کہ شخصِ مذکور ہی قاتل ہے۔

اہل سنت اور اہل کتاب کی شہادت

ذیل کے موارد میں کو نسا فرض صحیح ہے؟الف) اہل سنت کی گواہی اہل تشیّع کے خلاف دیوانی یا فوجداری کے کیس میں جبکہ خواہاں (گواہوں کے طلب کرنے والے) سنی مذہب اور خواندہ (جس کے خلاف گواہی دی جائے) شیعہ ہوں۔ب)اہل سنت کی گواہی اہل سنت کے خلاف دیوانی یا فوجداری کے کیس میں جبکہ خواہاں سنی مذہب اور خواندہ شیعہ ہوں۔ج) اہل سنت کی گواہی دیوانی یا فوجداری کے کیس میںجبکہ خواہاں سنی مذہب اور خواندہ شیعہ ہوں۔د) اہل سنت کی گواہی اہل تشیّع کے حق میں جبکہ خواہاں سنی مذہب اور خواندہ شیعہ ہوں۔ھ) اہل کتاب(یہودی ، عیسائی وغیرہ) کی گواہی مسلمان کے حق میں یا نقصان میں۔

جواب: الف سے لے کر ہ تک: اہل سنت کی شہادت اس صورت میں جبکہ وہ اعتقادی نظر سے مستضعف ہوں اور عمل کے اعتبار سے عادل ہوں نیز ان سے فسق نہ دیکھا گیا ہو، تمام مذکورہ صورت میں قبول کی جائے گی؛ (۱)لیکن اہل کتاب کی شہادت چاہے مسلمان کے حق میں یانقصان میں ، قبول نہیں ہے، لیکن ان مخصوص موارد میں کہ جن کی طرف قرآن مجید کی بعض آیتوں (سورہٴ مائدہ/۱۰۶) میں اشارہ ہوا ہے۔۱۔ آیة الله العظمیٰ خوئی نے ”مبانی تکملة المنہاج ، ج۱، ص۸۰“ پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہےاکتالیسویں فصل

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت