قرض میں مہنگائی کا حساب کرنا
آیا قیمتوں میں اضافہ (مہنگائی)کا قرض وغیرہ میں حساب کرنا سود میں شمار ہوگا؟
جواب۔ہمارے زمانہ میں قیمتوں میں اضافہ کا مسئلہ اس شدّت اور وسعت کے ساتھ جو کاغذی پیسہ (کرنسی) کی دین ہے۔ جب بھی عام لوگوں میں مرسوم اور رائج ہونے کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہو جائے مفروضہ مسئلہ میں سود شمار نہیں ہوگا۔(جیسا کہ بعض بیرونی ممالک کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں بینک میں جمع رقم کے سلسلہ میں بھی قیمتوں میں اضافہ (مہنگائی)کا محاسبہ کرتے ہیں اور سود کا بھی حساب کرتے ہیں )۔ایسے حالات اور شرائط میں مہنگائی کا حساب کرنا سود نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ فائدہ لینا سود ہے لیکن پمارے معاشرہ میں اور اسی طرح کی دوسری جگہوں پر کہ جہاں عاملوگوں میں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ کا حساب نہیں ہوتا لہٰذا سب کا سب سود شمار ہوگا۔ اس لئے کہ جو لوگ ایک دوسرے کو قرض دیتے ہیں چند مہینہ یا اس سے زیادہ مدّت کے گزر جانے کے بعد بھی اپنی معیّن رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور مہنگائی کے فرق کا حساب نہیں ہوتا اور رہی ےہ بات کہ علمی نشستوں میں مہنگائی کا حساب ہوتا ہے فقط ےہی کافی نہیں ہے اس لئے کہ معیار وہ ہے جو عام لوگوں میں رائج ہے لیکن ہم ایک صورت کو مستثنیٰ(الگ)کرتے ہیں اور وہ ےہ کہ مثال کے طور پر تیس سال گزرنے کے بعد بہت زیادہ فرق ہو گیا ہو۔لہٰذا خواتین کا قدیم مہر یا انکے اسی طرح کے دیگر مطالبات کے سلسلہ میں ہم احتیاط واجب جانتے ہیں کہ آج ادا کرنے کے وقت کی قیمت کا حساب کیا جائے یا کم از کم مصالحت کی جائے ۔