مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدها پربازدیدها

توضیح المسائل پر عمل کرنا کافی ہے، یعنی کیا مطلب؟

اس مطلب کی تصریح کے مطابق عمل کرنا جائز ہے جو توضیح المسائل کے شروع میں لکھی ہوتی ہے کیا وہ دوسروں کے فتویٰ پر عمل کرنے سے منع کرتی ہے؟اور کیا لوگ ایسے مرجع کی بہ نسبت جو قدرت بیان نہ رکھنے کی وجہ سے ناشناختہ رہ گیاہو، کوئی ذمہ داری رکھتے ہیں؟ تو ایسی صورت میں کیا لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کو پہنچوائے؟

جواب :الف)مذکورہ تصریح دوسرے مجتہدین کے رسالے پر عمل کرنے سے انکارنہیں کرتی بلکہ ممکن ہے چند جائز التقلید مجتہد ، اجتہاد کے شرایط میں برابر ہوں۔ ہاں اگر کسی کی توضیح المسائل میں یہ لکھا ہوا ہو کہ صرف اسی پر عمل کرنا متعین ہے اور دوسروں کے رسالے پر عمل کرنا جایز نہیں ہے تو اس بات کا مفہوم دوسروں کی نفی کرتا ہے جبکہ میں نے ابھی تک کسی بھی رسالہ کے مقدمہ میں ایسی بات لکھی ہوئی نہیں دیکھی ۔ب) صحیح ہے کہ قدرت بیان کا پایا جانا انسان کی معرفی کا باعث ہے لیکن اگر کوئی شخص بیان کی قدرت نہیں رکھتا جس کے نتیجہ میں اس کا علم لوگوں کے درمیان مجھول رہ جائے اور جستجو کے با وجود بھی اس کا علمی مقام واضح نہ ہوپائے تو ایسی صورت میں لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس کو پہنچوائے ، وہ اس خزانہ کے مانند ہے جو پہچانا نہ گیا ہو اور ایسے خزانے کے بارے میں لوگوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔

قضا روزوں کی تعداد میں شک

اس وقت میری عمر تقریبا ً ۲۲ / سال ہے اور قریب چار سال سے اپنے تمام روز ے رکھ رہاہوں لیکن اس سے پہلے کے چند روزے بعض وجوہات کی بناپر نہیں رکھے ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ان روزوں کی تعدادکیا ہے ، اس سلسلہ میں میرا کیا وظیفہ ہے؟

جواب:۔ جس تعدا میں روزے نہ رکھنے کا یقین ہے اسی تعداد میں روزے کی قضاکرےںاور اگر عمداً روزے نہیں رکھے تھے تو کفارہ بھی واجب ہے ، البتہ اگر روزے کے مسائل سے آگاہ نہیں تھے تو کفارہ واجب نہیں ہے ۔

اولاد کے قتل کی روک تھام کے لئے سزاؤں میں شدت

اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ باپ یا دادا کے ذریعہ بچوں کا قتل قصاص نہیں رکھتا، افسوس کہ یہ امر معاشرے میں زیادہ رواج پا گیا ہے! ان افراد کے لئے سزا میں شدت کے لئے کیا حکم صاد ر فرماتے ہیں؟

جواب : ان موراد میں باپ یا دادا دیت ادا کریں اور آپ جانتے ہیں کہ دیت بہت زیادہ سنگین ہوتی اور ایک مہم سزا شمار ہوسکتی ہے ، اگر حاکم شرع تشخیص دے کہ معاشرہ میں یہ کام بہت زیادہ ہوگیا ہے تو اس کے علاوہ سخت تعذیر بھی کرسکتا ہے البتہ اگر ابھی بچہ شکم مادر میں ہو تو کسی بھی حال میں قصاص نہیں ہے فقط دیت ہے۔

دسته‌ها: قصاص کے شرایط

پیشہ ورانہ کھیل کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ

اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ورزش نے آدھی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور کبھی کبھی یہ سیاست اور حکومت میں بڑا کردار ادا کرتی ہے نیز ہمارے ملک میں اخلاقی فساد سے مقابلہ کا بہترین ذریعہ شمار ہوتی ہے، گزارش ہے کہ درج ذیل سوالات کے سلسلے میں اپنی مبارک نظر بیان فرمائیں:۱۔ ورزش کے سلسلے میں مقدس شریعت کا کیا نظریہ ہے ؟۲۔ پیشہ ورانہ ورزش کے سلسلے میں اسلام کیا کہتا ہے؟۳۔ ایسے افراد کے سلسلے میں جو لوگ ورزش کو اپنا مستقل شغل قرار دیتے ہیں اور اسی سے درآمد کرتے ہیں، اسلام کا کیا نظریہ ہے؟۴۔ چیمپین شب والی ورزش کے متعلق اسلام کی کیا نظر ہے؟۵۔ عوض (وہ پیسہ جو ورزش کرنے والے کے لئے منظور ہوتا ہے) کے ساتھ ورزشی مقابلوں کا کیا حکم ہے؟۶۔ کیا مخصوص لباس کے ساتھ کھیلوں کا ٹی وی پر ڈائریکٹ دکھانا اور عورت ومردکا اُن کودیکھنا جائز ہے؟۷۔ کھلاڑیوں کا ہارجیت کی شرط لگانے یا کسی تیسرے شخص کے شرط لگانے کا کیا حکم ہے؟

ا سے ۷ تک: بیشک ورزش جسم وروح کی سلامتی کے لئے ضروری ہے اور اسلام میں بھی بامقصد ورزش کی تاکید ہوئی ہے (جیسے گھڑ سواری، تیراکی وغیرہ) لیکن شرط لگانے کی فقط گھڑ سواری اور تیراندازی میں اجازت دی گئی ہے، افسوس کہ آج ورزش اور کھیل کود جیسا کہ آپ نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، بہت سے موارد میں اپنے اصلی راستہ سے ہٹ گئے اور افراط وتفریط کی طرف مائل ہوگئے ہیں اور کبھی کبھی زرپرستوں کے تجارتی مسائل کا آلہ یا سیاست بازوں کا لقمہٴ تر بن جاتے ہیں، اگر یہی حال رہا تو ورزش کرنے والوں اور اس کے شائقین کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے،اُمید کرتا ہوں کہ ورزش اور کھیل کود کے اندیشمندان اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی روک تھام کے لئے کوئی راستہ تلاش کریں، اس کو اس کی اصلی جگہ دیں اور یہ بھی کہ ہمارے کچھ جوان ورزش کے انحرافات کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں اس کی بھی روک تھام ہونی چاہیے۔

دسته‌ها: مختلف مسائل

ماہ رمضان کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کے لئے علم نجوم کے ماہرین کی طرف رجوع کرنا

اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ دور حاضر میں علم نجوم میں ترقی یافتہ آلات موجود ہیں اور بہت سے اشخاص اس علم کے ماہر اور اس فن میں اہلِ خبرہ ہیں اور چونکہ اہلِ خبرہ افراد کی طرف رجوع کرنا ایک سیرت رہی ہے اور صحیح بھی ہے نیز اس چیز کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کہ مثلاً یہ لوگ بڑے دقیق حساب کی بنیاد پر اعلان کرتے ہیں کہ فلاں سال فلاں روز فلاں گھنٹے فلاں منٹ فلاں سیکنڈ فلاں ملک میں سورج گہن ہوگا اور ایسا ہوتا بھی ہے، ہمارا سوال یہ ہے کہ رمضان المبارک یا شوال کے مہینوں کی پہلی تاریح معین کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کیوں نہیں کیا جاتا، اور عام لوگوں کو چاند دیکھنے کے لئے شہروں کے باہر کیوں بھیجاتا ہے تاکہ روزہ اور اس کے افطار کی تکلیف کو معین کیا جاسکے؟

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اگر علماء نجوم دقیق آلات کے ذریعہ چاند دیکھنے کے سلسلے میں متفق القول ہوں تو اُن کی مخالفت مشکل ہے، مگر یہ کہ چاند دیکھنے کے مسئلہ میں لوگوں کی کثیر تعداد اُن کے مخالف دعویٰ کرے، ہم نے اس نظریہ کو گذشتہ سال نشر کیا تھا ۔

سامان کی اسمنگلنگ کا شرعی حکم

اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سرحدی علاقوں میں ہر طریقہ کی اسمنگلی فراوانی کے ساتھ رائج ہے اور معاشرے کو غیر تلافی نقصانات پہنچاتی آرہی ہے، میں کچھ دوستوں اور انشاء الله آپ بزرگوں کی مدد سے اسمنگلی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی غرض سے کچھ سوالات بنائے ہیں اور اُمید ہے کہ حضور ان سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں گے ۔۱۔ کلّی طور سے اسمنگلی کا اسلام کی مقدس شریعت میں کیا حکم ہے؟ چاہے وہ اسمنگلی شدہ اشیاء باواسطہ فساد آورد ہوں یا بلاواسطہ ہوں ۔۲۔ کیا اسمنگلی ملک اور لوگوں کے اوپر خیایت شمار ہوتی ہے؟ کیا اسمنگلی اور ہر وہ جو کسی بھی عنوان سے اس میں مدد کرتے ہیں منافقوں کے حکم میں ہیں؟ کیا اس سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث معصومین علیہم السلام کا کوئی خاص بیان ہے ؟۳۔ اسمنگلر کے اموال سے کسی دوسرے شخص کے لئے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ چاہے وہ اس کو پیسوں سے خریدے یا مفت حاصل کرے؟۴۔ اگر اسمنگلری سے حاصل کئے پیسے سے خود اسمنگلر یا کوئی اور شخص جائز کاروبار کرتے تو اصل پیسہ اور اس سے کمایا گیا مال کا کیا حکم ہے؟۵۔ اگر زندگی سختی سے گذر رہی ہو تو کیا اسمنگلی کے پیشہ کو بطور شغل اختیار کیا جاسکتا ہے؟۶۔ معاشرے کے لوگوں کو اسمنگلروں کے ساتھ اور عمومی بطور پر اسمنگلی کے مسئلہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟۷۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کچھ سرکاری افسروں کا اسمنگلروں سے رشوت لینا بڑا عام ہوگیا ، ایسے اشخاص کے لئے جنابعالی کیا وصیت فرماتے ہیں؟

۱۔ سے آخر تک : اشیاء کی اسمنگلی (یعنی سرحدوں سے غیر قانونی طور پر سامان کا ملک میں وارد کرنا) اسلامی شریعت کے احکام کے خلاف ہے اور اس سے شدّت کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے، خصوصاً اس وقت جب ملک ومعاشرے کے لئے ضرر کا سبب ہو، اور اسلامی ملک کے اقتصاد کو نقصان پہنچائے، اور اسمنگلی میں اسمنگلروں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے اور اس کام کے لئے رشوت لینا دُہرا گناہ کناہ ہے، اور سب پر لازم ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو نہ بھلائیں ۔

دسته‌ها: اسمنگلنگ

اطلاع رسانی میں قرآن کی روشِ بیان سے استفادہ کرنا

اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ قرآن شریف الله کا کلام اور اس کا معجزہ ہے، طبعاً خداوندعالم نے لوگوں سے میل جول بڑھانے کے مختلف طریقے بیان فرمائے ہیں کہ جو قطعاً کامل ترین طریقے ہیں، یہ بیانی طریقے کیا ہیں؟ خبر کے سلسلے میں کس طرح ان سے استفادہ کرسکتے ہیں؟

قران مجید کے فصاحت وبلاغت کے طریقوں کو حاصل کرنے کے لئے اور خبرنگاری میں ان سے استفادہ کرنے کے لئے ”پیام قرآن“ کی آٹھویں جلد کی قرآن مجید، فصاحت وبلاغت کی نظر سے ”معجزہ“ ہونے کی بحث میں صفحہ۸۷ کے بعد دیکھے سکتے ہیں، یا ہماری کتاب ”قرآن وآخرین وپیامبر“ میں مطالعہ کرسکتے ہیں ۔

دسته‌ها: خبرنگار (صحافی)

گداؤں (بھکاریوں) کے مال ودولت

اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ بهیکاریوں کے ساتھ جرم کے عنوان سے کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی، بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پورے شہر میں فقیر اور تہی دست کے عنوان سے بھیک مانگتے ہیں، لوگ بھی ان کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے ہمدردی اور راٴفت کی رو سے ان کی مدد کرتے ہیں اور چونکہ ان فغقیروں کو اکھٹا کرنے پر ایک توافق انجام پایا ہے کہ جس کی ذمہ دار شہر داری اور انتظامیہ ہے اور ان کے ایک جگہ پر رکھنے کی ذمہ دار ”سازمان بہزیستی“ ہے کہ جس کا مرکز ہدایت (ہیڈکواٹر) کے نام سے مشہور ہے جتنی مدت یہ بھکاری لوگ اس مرکز میں ٹھہرائے جاتے ہیں اس مدت میں ان کو نہانے، دھونے، غذا لباس اور دیگر ضروریات زندگی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس سلسلے میں جناب عالی سے کچھ سوال مطلوب ہیں:۱۔ اس دستور العمل کے مطابق جو ”بہزیستی سازمان“ سے مراکز کو بھیجا گیا ہے، ہر فقیر کی سکونت کا ایک رات ایک دن کا خرچ ۱۵۰۰۰(پندرہ ہزار)ریال ہے جو ان سے لیا جائے گا ۔ کیا اتنا پیسہ لینا جائز ہے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس سے زیادہ لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ (قابل ذکر ہے کہ یہ پیسہ اُن پر یا دوسرے گداؤں پر خرچ ہوتا ہے)۲۔ بعض گدالوگ محجور ہیں اور ان کی قوہ عاقلہ زائل ہوگئی ہے اور ان میں سے بہت سےبہت زیادہ دولتمند ہیں اور کچھ کے گھر والوں کی ہم کو کوئی خبر نہیں ہے، اور چونکہ ہم ان کو ہمیشہ تو اپنے پاس رکھ نہیں سکتے، لہٰذا مجبور ہیں کہ ان کو چند روز بعد ان کے شہر اور محل سکونت میں پہنچادیں،لیکن ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ یہ اپنا پیسہ نہ کھو بیٹھیں ، کیا جائز ہے کہ ان سے پیسہ لے لیا جائے اور ”سازمان بہزیستی“ کے سپرد کردیا جائے تاکہ تمام مستحقین اور قابل امداد کہ جو اس مرکز کے تحت ہیں ان پر صرف کیا جائے؟

اوّلاً: اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ مسئلہ شرعی نظر سے پیچیدہ ہے، لہٰذا اس میں احتیاط اور باریک بینی سے عمل کیا جائے تاکہ آپ خلاف شرع کے مرتکب نہ ہوجائیں ۔ثانیاً: گداؤں کا وہ گروہ جس کے پاس زیادہ دولت اوزر ثروت ہے ان کے اموال مجہول المالک کے زمرہ میں ہیں، فقط ان کے ایک سال کے خرچ کے علاوہ اضافی پیسے کا دوسرے فقیر پر خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور وہ گدا جس کے پاس پیسہ کم ہے وہ سب کا سب انھیں کا مال ہے اور ان کے خرچ کے لئے اس پیسے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک دن کا خرچ مبلغ۰ ۱۵۰۰(پندرہ ہزار)ریال ان خدمات کے عوض ان سے لینا جو اُن کو دی جاتی ہیں بہت زیادہ ہے، مگر یہ کہ وہ مریض ہوں اور ان کو دن رات میں اتنی مقدار کی ضرورت ہو ۔ثالثاً: وہ گدا جو بہت زیادہ لاغر ہیں اور کام نہیں کرسکتے ان کے اموال کو دوسروں پر خرچ نہ کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ سال گذر جانے کے بعد بھی اسی چیز کا شکار ہوں گے ۔

دسته‌ها: بهیک مانگنا

قصاص کے لئے دین میں مساوات ہونا

اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ قصاص نفس کے حق کو ایجاد کرنے کی ایک بنیادی شرط ، دین میں مساوات ہونا ہے لہٰذا ذیل میں دئیے گئے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں :۱۔ مساوات کا ملاک ، ارتکاب قتل کا زمانہ ہے یا اجراء حکم کا زمانہ؟۲۔ کیا اہل حق اور علیّ اللّٰہی (۱)فرقہ، مسلمان شمار ہوتے ہیں؟

جواب : اس صورت میں جب کسی مسلمان کو قتل کیا ہو، پھر مسلمان ہوجائے تو قصاص ختم نہیں ہوتا اور اگر کافر نے کافر کو قتل کیا ہو تو قصاص ختم ہوجاتا ہے اور وہ قصاص دیت میں تبدیل ہوجاتا ہے؛ لہٰذا یہاں پر دین میں مساوات کا معیار ، حالِ قصاص ہے۔جواب2 : ان میں بعض خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام (ص) کی نبوت کا اظہار کرتے ہیں ؛ یہ گروہ مسلمان ہے؛ ہر چند کہ یہ گروہ منحرف ہے ، لیکن بعض دوسرے ایسے نہیں ہیں۔

دسته‌ها: قصاص کے شرایط
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی