سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

ظالم اور دوسروں کے حق پر ڈانکہ ڈالنے والوں سے مقابلہ میں مسلمانوں کا قتل ہو جانا

ہندوستان سے، برطانیہ کا قبضہ ختم ہونے اور اس کے مسلمان نشین صوبہ ”جمووکشمیر“ میں تقسیم ہونے کے بعد مسلمانوں کے مطالبہ اور تقسیم کے قانون کے برخلاف لشکر کشی، زورگوئی اور طاقت کے زور پر، یہ علاقہ، ہندوستان کے قبضہ میں آگیا، مسلمانوں نے اپنے مذہب، کلچر اور ناموس کی حفاظت اور آزادی کی خاطر، قبضہ کرنے والوں کے خلاف قیام کیا ہے اور اس جدوجہد میں بدترین مصائب منجملہ قتل عام، ٹارچر، قید، لوٹ مار وغیره میں گرفتار ہوئے ہیں، کیا اس قیام اور جد وجہد کی خاطر، قتل ہونے والے مسلمان، شہید کہلائیںگے، نیز کیا یہ تحریک، جہاد شمار ہوگی؟

جب تک مسلمانوں کی جان، مال، ناموس کی حفاظت اور بقائے اسلام اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کے لئے دفاع اور کوشش کررہے ہیں، ان کا یہ عمل ،جہاد ہے اور ان میں سے جو لوگ اس راہ میں قتل ہوئے ہیں، وہ شہید ہیں، لیکن کوشش کریں کہ مجتہد یا اس کے نمائندے سے، حکم، ضرور حاصل کریں ۔

اقسام: شهید

ظالم اور دوسروں کے حق پر ڈانکہ ڈالنے والوں سے مقابلہ میں مسلمانوں کا قتل ہو جانا

ہندوستان سے، برطانیہ کا قبضہ ختم ہونے اور اس کے مسلمان نشین صوبہ ”جمووکشمیر“ میں تقسیم ہونے کے بعد مسلمانوں کے مطالبہ اور تقسیم کے قانون کے برخلاف لشکر کشی، زورگوئی اور طاقت کے زور پر، یہ علاقہ، ہندوستان کے قبضہ میں آگیا، مسلمانوں نے اپنے مذہب، کلچر اور ناموس کی حفاظت اور آزادی کی خاطر، قبضہ کرنے والوں کے خلاف قیام کیا ہے اور اس جدوجہد میں بدترین مصائب منجملہ قتل عام، ٹارچر، قید، لوٹ مار وغیره میں گرفتار ہوئے ہیں، کیا اس قیام اور جد وجہد کی خاطر، قتل ہونے والے مسلمان، شہید کہلائیںگے، نیز کیا یہ تحریک، جہاد شمار ہوگی؟

جب تک مسلمانوں کی جان، مال، ناموس کی حفاظت اور بقائے اسلام اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کے لئے دفاع اور کوشش کررہے ہیں، ان کا یہ عمل ،جہاد ہے اور ان میں سے جو لوگ اس راہ میں قتل ہوئے ہیں، وہ شہید ہیں، لیکن کوشش کریں کہ مجتہد یا اس کے نمائندے سے، حکم، ضرور حاصل کریں ۔

اقسام: جهاد

ظالم اور دوسروں کے حق پر ڈانکہ ڈالنے والوں سے مقابلہ میں مسلمانوں کا قتل ہو جانا

ہندوستان سے، برطانیہ کا قبضہ ختم ہونے اور اس کے مسلمان نشین صوبہ ”جمووکشمیر“ میں تقسیم ہونے کے بعد مسلمانوں کے مطالبہ اور تقسیم کے قانون کے برخلاف لشکر کشی، زورگوئی اور طاقت کے زور پر، یہ علاقہ، ہندوستان کے قبضہ میں آگیا، مسلمانوں نے اپنے مذہب، کلچر اور ناموس کی حفاظت اور آزادی کی خاطر، قبضہ کرنے والوں کے خلاف قیام کیا ہے اور اس جدوجہد میں بدترین مصائب منجملہ قتل عام، ٹارچر، قید، لوٹ مار وغیره میں گرفتار ہوئے ہیں، کیا اس قیام اور جد وجہد کی خاطر، قتل ہونے والے مسلمان، شہید کہلائیںگے، نیز کیا یہ تحریک، جہاد شمار ہوگی؟

جب تک مسلمانوں کی جان، مال، ناموس کی حفاظت اور بقائے اسلام اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کے لئے دفاع اور کوشش کررہے ہیں، ان کا یہ عمل ،جہاد ہے اور ان میں سے جو لوگ اس راہ میں قتل ہوئے ہیں، وہ شہید ہیں، لیکن کوشش کریں کہ مجتہد یا اس کے نمائندے سے، حکم، ضرور حاصل کریں ۔

اقسام: دفاع

حملہ آور فوجی کے مقابلہ میں اپنا دفاع کرنا

جس وقت عراق کے ظالم لشکر نے، کویت پر قبضہ کیا، اس وقت مجھے یہ مسئلہ پیش آیا تھا، مہربانی فرماکر اس مسئلہ کا جواب عنایت فرمائیں واقعہ یہ ہے کہ کویت پر قبضہ کے آٹھویں دن، جب میں اپنے گھر واپس پہونچا تو میں نے ایک عراقی فوجی کو اپنے گھر میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس دیکھا، میں نے اپنے چھوٹے بھائی سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: ایک عراقی فوجی ہے جو کویتی لوگوں کو قتل کررہے ہیں، لیکن میں نے اس کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اور کمرے میں جاکر نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا، اسی وقت اُس عراقی فوجی نے اُس پر اسلحہ سے وار کیا کہ اس کے بدن سے خون جاری ہوگیا، لیکن وہ ابھی زمین پر نہیں گرا تھا کہ میں ،اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان کے خوف کی وجہ سے دفاع کرنے پر تیار ہوا اور اس فوجی پر حملہ کردیا، شریعت کی رو سے اس طرح کے دفاع کا کیا حکم ہے؟

اگر حملہ آور فوجی، تمھاری جان ومال یا تمھارے بچوں کی جان ومال کا ارادہ رکھتا تھا تب اس صورت میں، ہر طرح کی چیز کے ذریعہ، دفاع کرنا جائز تھا اور اس کا خون، ہدر اور رائیگاں ہوگا ۔

حملہ آور کو قتل کرنے کے سلسلہ میں شریعت کا حکم

کیا اُس حملہ آور یا چور کو قتل کرنا جائز ہے جو کسی انسان پر حملہ کرے یا اس کے گھر میں چوری کرنے آئے؟

اس وقت جائز ہے جب قتل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو اور اس صورت میں اس کا خون ہدر ہے (یعنی قصاص وغیرہ نہیں کیا جاسکتا)

کافر کی قسمیں

کافر کی رائج تقسیم، کافر حربی اور کافر ذمّی، جس میں کافر غیر ذمّی کو حربی جانتے ہیں، کے مطابق، کیا اس پر ذمّی کے تمام احکام جاری کئے جاسکتے ہیں تاکہ جو کفار اسلامی جمہوریہ ایران میں رہتے ہیں وہ کافر ذمّی اور باقی کفّار خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہوں، کافر حربی سمجھے جائیں، اور کافر حربی سے مخصوص تمام اقدامات، ان کے بارے میں کیا جانا جائز ہوجائے یا نہیں بلکہ کافر حربی مخصوص ہے اس حالت سے جب وہ جنگ کی حالت میں ہوں اور حالت جنگ کے علاوہ، کفار کی تیسری قسم ہوتی ہے جو نہ ذمّی ہوتے ہیں اور نہ حربی، نیز کیا ان کفار کی جان، مال اور عزّت وآبرو محترم ہے جو حالت جنگ میں نہیں ہیں؟

کافر کی تیسری اور چوتھی قسم بھی ہے، اس کی تیسری قسم ”کافر معاہد“ ہے، دور حاضر کے وہ بہت سے ممالک ، جن سے ہمارے سیاسی تعلقات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، اس (تیسری قسم) کا مصداق شمار ہوتے ہیں اور جب تک کسی طرح سے بھی وہ ممالک، مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں داخل نہ ہوں، اُن کی تمام چیزیں، جان اور ان کا مال، محترم ہے، اس لئے کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کے قوانین کے اعتبا رسے ان کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات ہوگئے ہیں، اس وجہ سے وہ سب، تیسری قسم یعنی ”کافر معاہد“ کے دائرے میں شمار ہوں گے، نیز توجہ رہے کہ کافر معاہد کا وقت محدود نہیں ہوتا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، ہماری نظر میں ایسا نہیں ہے اور کافر معاہد ، اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں کافروں کو شامل ہے (یعنی کافر کی تیسری قسم (کافر معاہد) میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں) اور قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ اہل کتاب کو اس وقت کافر ذمّی کا عنوان دیا جائے گا جب وہ اسلامی ممالک کے اندر زندگی بسر کرتے ہوں، لہٰذا جو اہل کتاب کفار اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہیں وہ فقط ”کافر معاہد“ ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں کافر ذمّی کے معاہدہ کا کوئی مطلب نہیں ہے (مگر یہ کہ کوئی کافر نشین ملک خود کو اسلامی ممالک کی پناہ میں دیدے) اس لئے کہ کافر ذمّی کے احکام میں بہت سے ایسے قرینہ موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ احکام، اسلامی ممالک کے اندر رہنے والے، اقلّیتی مذہب والوں سے متعلق ہیں ۔چوتھی قسم، وہ کفار ہیں جو نہ کفار ذمّی کا حصّہ ہیں نہ کافر معاہد اور نہ کفار حربی میں شامل ہیں، حقیقت میں وہ مسلمانوں کے لحاظ سے بالکل بے طرف اور غیرجانبدار ہیں، ان کو غیر حانبدار کا نام دیا جاسکتا ہے، قرآن مجید کی دو آیتوں میں ان کی وضعیت اور صورتحال کی طرف اشارہ ہوا ہے ، سورہٴ ممتحنہ کی آیت ۸ میں ارشاد ہوتا ہے: اور سورہٴ نساء کی آیت ۹۰ میں کفار کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: لہٰذا اس بناپر ”القای سلم“ سے مراد، مسالمت آمیز راستہ ہے، معاہدہ صلح نہیں، اس لئے کہ القای سلم کی عبارت، ان ہی معنی سے مناسب ہے اور بعد کی آیت بھی اسی آیت پر شاہد ہے، بہرحال غیرجانبدار کافر کی جان، مال، عزّت آبرو بھی محترم اور محفوظ ہے، اور کفار کی چار قسموں کے متعلق اس سے زیادہ وضاحت کرنے کے لئے، نسبتاً تفصیلی بحث کی ضرورت ہے (جس کا یہاں پر موقع نہیں ہے

اقسام: کافر

اس شخص کو تذکر (ٹوک) دینا جو قرآن مجید کو غلط پڑھ رہا ہے

اگر کوئی شخص قرآن مجید کو غلط پڑھ رہا ہو کیا اس کو تذکر دینا یا ٹوک دینا واجب ہے؟

سوال ۱۱۵۸۔ اگر کوئی شخص قرآن مجید کو غلط پڑھ رہا ہو کیا اس کو تذکر دینا یا ٹوک دینا واجب ہے؟جواب: بہتر ہے اچھے اور نرم لہجہ میں تذکردیں ۔

اقسام: قرآن مجید
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت