ملزم کے قاتل نہ ہونے پر رشتہ داروں کی شہادت
قبائلی زندگی بسر کرنے والوں کے یہاں یہ رسم ورواج ہے کہ اگر ایک خاندان دوسرے خاندان کے ساتھ لڑائی جھگڑے کا قصد رکھتا ہے اور مدمقابل میں کسی کو قتل یا زخمی کرنا چاہتا ہے تو اپنے تمام اہل خاندان سے مشورہ اور ان کو اس ماجرے سے باخبر کرتا ہے ، اس کے بعد سب قسم کھاتے ہیں کہ اس طرح کا جرم انجام دیں گے ، اس بالا مقدمہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذیل کے سوال کا جواب عنایت فرمائیں:۱۔ مقتول کا سابقہ دشمنی کی وجہ سے کسی کے ساتھ اختلاف تھا، یہاں تک کہ پہلے چند مرتبہ، مقتول کے خاندان اور قاتلوں کے خاندان کے درمیان لڑائی کی وارداتیں ہوئی تھیں، نیر مقتول کو انھوں نے کئی مرتبہ مارا پیٹا اور دھمکیاں وغیرہ بھی دی تھیں، ایک رات مقابل گروہ کے دو آدمیوں نے اس کے گھر پر حملہ کیا اور اس کو اس کی بیوی اور چھوٹے بچوں کی نظروں کے سامنے قتل کرنے کے بعد ، فرار ہوگئے ! ابھی مقتول میں کچھ جان باقی تھی کہ اس کا چچا اس کے سرہانے حاضر ہوا، مقتول نے اپنے چچا سے کہا: ”فلاں شخص نے مجھے اسلحہ سے زخمی کیا ہے“ دوسری طرف سے قاتلین کے خاندان کے دو تین آدمیوں (بھائی اور چچاکے بیٹے) نے گواہی دی ہے کہ فلاں شخص نے یہ کام نہیں کیا ہے، کیا قاتل کے خاندان والوں کی گواہی جو قتل کے پلان میں شریک تھے اور غرض کے ساتھ گواہی دے رہے ہیں، قابل قبول ہے؟
جواب: ان کا یہ شہادت دینا کہ وہ قاتل نہیں ہے کوئی اثر نہیں رکھتا؛ ہرچند شہود یعنی گواہوں کو قتل کے کیس میں متہم نہیں ہونا چاہیے ، جبکہ اس مقام پر مفروضہ مسئلہ میں شہود متہم بھی ہیں، البتہ مقتول کی شہادت بھی کوئی اثر نہیں رکھتی، مگر یہ کہ قاضی کو مقتول اورمقتول کے عزیزو اقارب کی گواہی کہ جو موقعہ واردات پر حاضر تھے اور اسی طرح کے دوسرے قرائن کے ذریعہ علم ہوجا ئے کہ شخصِ مذکور ہی قاتل ہے۔