مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدها پربازدیدها

طلاق میں نافرمان زوجہ کی وکالت کا اعتبار

اگر کوئی زوجہ شرط رکھے کہ اس کے شوہر کے دوسری شادی کرنے کی صورت میں طلاق کے سلسلے میں وکیل رہے گی اب شوہر ، زوجہ کے نامناسب سلوک کی وجہ سے، روسری شادی کرلے ، کیا تب بھی پہلی بیوی ، طلاق کے متعلق وکیل ہے ؟

جواب:۔ ظاہر اًیہ صورت اُس قسم کی صورتحال سے الگ ہے، اس لئے کہ اس شرط کا مقصد یہ تھا کہ پہلی بیوی قناعت سے کام لے گی ، اب اگر پہلی زوجہ، ازدواجی زندگی پر ٹھوکر مار کر، شوہر کو بلا تکلیفی کی حالت میں چھوڑ دیتی ہے تو اس شرط کو پورا کرنے کی کوئی جگہ ہی نہیں رہ جاتی، یعنی طلاق کے سلسلے میں، زوجہ کو وکالت حاصل نہیں ہوگی .

دسته‌ها: طلاق کے احکام

تمکین نہ کرنے والی عورت (بیوی) کی طلاق

میری زوجہ اسلامی احکام کے سلسلے میں، بے توجہ ہے تمکین نہیں کرتی اور ابھی غیر مدخولہ (یعنی اس کے دخول نہیں ہوا) ہے کیا اس کو طلاق دےسکتا ہوں ؟ اس کی طلاق کس نوعیت کی ہے اور مہر کا کیا حکم ہے ؟

جواب:۔مناسب ہے کہ اس کے ساتھ کچھ عرصہ تک، نرم برتاؤ اور اچھا سلوک کرو، اس کو نصیحت کرو ، اور اس کے ساتھ محبت سے پیش آؤ ، شاید آہستہ آہستہ بدل جائے اور طلاق کی نوبت نہ آئے اور حرام اور غیر واجب چیزوں کے علاوہ ، اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ، اگر اس کا بھی کوئی نتےجہ سامنے نہ آئے تو اس سے جدا ہوسکتے ہو، لیکن جو آپ نے تحریر کیا ہے اس کے مطابق آپ کی زوجہ ، ناشزہ (نافرمان) اور غیر مدخولہ ہے لہذا اس کو نفقہ کا حق نہیں ہے، اور اگر وہ طلاق لینا چاہئے تو اس کی طلاق ، طلاق، خلع ہے ، اورمہر کو بذل (بخش دینے) یا اس کے مثل کوئی اور چیز بذل (بخشے) کے بغیر نیز شوہر کی رضایت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں ہے .

دسته‌ها: طلاق کے احکام

قاضی کے ذریعہ طلاق

جب کوئی شخص اپنی زوجہ پر سختی کرے اور اس کو طلاق دینے پر بھی راضی نہ ہو تو قاضی کس صورت میں اس خاتون کو طلاق دے سکتا ہے ؟

جواب:۔قاضی کیلئے طلاق دینا اس صورت میں جائز ہے کہ جب مصالحت کا امکان اس حد تک ختم ہو جائے کہ شدید عسر وحرج اور مشقت کا باعث ہو، شوہر بذات خود طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو اور قاضی کی دی ہوئی طلاق رجعی ہوتی ہے، لیکن اگر شوہر، رجوع کرے اور اس کے بعد دوبارہ آپس میں نا اتفاقی کا موضوع باقی رہے ، تو (قاضی) دوبارہ طلاق دے گا، یہاں تک کہ تیسری طلاق بائن ہوجائے گی .

دسته‌ها: طلاق کے احکام

طلاق میں شوہر کے دعوے کو قبول کرنا

آیا شوہر کے محض یہ کہنے سے: میں نے اس کو مطلقہ کیا، طلاق ہو جاتی ہے ؟ اس طرح کہ اس عورت کو دوسری شادی کرنے کا حق حاصل اور نفقہ ساقط ہو جائے، یا یہ کہ دوعادل گواہوں کے سامنے ہو ؟

جواب:۔اس سلسلہ میں ، مجتہدین کرام کے نظریات مختلف ہیں، مرحوم قمی ۺ نے ، کتاب ((جامع الثّقات)) میں اور محقق یزدی ۺ نے کتاب ((عروة الوثقیٰ )) کی ملحقات، میں اس بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور تمام پہلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ محض شوہر کا طلاق دینے کا دعویٰ کرنے سے، طلاق ہونا، اشکال سے خالی نہیں ہے بلکہ اس پر بینہ (دو عادل گواہ) قائم ہونا چاہئے .

دسته‌ها: طلاق کے شرایط

ولی کے ذریعہ نابالغ بچّی کی شادی

ایک شخص نے اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح ایک بچّہ سے کردیا ہے، اب اس وقت لڑکی ۱۷ سال کی ہے اور لڑکا ۱۳ سال کا ہے اور جسمانی لحاظ سے بھی بہت چھوٹے لگتے ہیں، لڑکی ،کا باپ مر گیا ہے یعنی وہ یتیم ہوگئی ہے، اور اس بچہ سے شادی کرنے پر تیار نہیں ہے، اس لئے کہ اس کے بڑے ہونے کا انتظار نہیں کرسکتی، مذکورہ مطالب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، ہم حضرت عالی کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ اگر اسلام کی مقدس شریعت کی اجازت ہو تو آپ حکم فرمائیں کہ مذکورہ لڑکی کی، اس بچہ کے بڑے بھائی سے، شادی کردی جائے، جس پر خود وہ لڑکی بھی راضی ہے ؟

جواب:۔اگر مذکورہ نکاح شروع سے ہی نابالغ لڑکی کی مصلحت میں نہیں تھا تو یہ نکاح، اصل سے ہی باطل ہے، اور اگر فرض کیا جائے کہ یہ نکاح لڑکی کی مصلحت میں تھا لیکن اب اس بچہ کے بالغ ہونے کا اس سے زیادہ انتظار کرنا، مذکورہ لڑکی کیلئے ، شدید مشقت اور نقصان کا باعث ہے، تو لڑکے کا ولی، اس لڑکی کی طلاق کے صیغہ جاری کرسکتا ہے اور اس کے بعد وہ جس سے چاہے شادی کر سکتی ہے .

دسته‌ها: طلاق کے شرایط

شوہر کا طلاق سے پہلے مقاربت کرنے کا دعوےٰ

ایک طلاق خلع واقع ہوگئی ہے، لیکن شوہر کا دعویٰ ہے کہ طلاق سے پہلے اس نے اپنی زوجہ کے ساتھ ہمبستری کی ہے، اور دوسرے یہ کہ طلاق کے وقت ،دو عادل گواہ موجود نہیں تھے بلکہ طلاق، بعض، بظاہر نیک مؤمنین کے سامنے واقع ہوئی ہے کیا اس قسم کی طلاق صحیح ہے ؟

جواب:۔مذکورہ طلاق ہر حال میں صحیح ہے، اس لئے کہ مسئلہ کے فرض مین، شوہر کا جماع کے بارے میں، دعویٰ قبول نہیں ہے، اور خود اس کے اعتراف کرنے کے مطابق گواہان بظاہر عادل تھے، باطن کو جاننا ہمارے اوپر لازم نہیں ہے، لہذا اس بنا پر طلاق میں کوئی اشکال نہیں ہے ، مگر یہ دلیل شرعی کے ذریعہ شوہر اپنا دعویٰ ثابت کرے .

دسته‌ها: طلاق کے شرایط
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی