سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

سگریٹ نوشی کے حرام ہونے پر مشتمل فتوے کی دلیلیں

کچھ عرصہ سے مختلف محفلوں میں یہ بات ہورہی ہے کہ جنابعالی نے سگریٹ پینے کو حرام قرار دیا ہے، اس سلسلہ میں ہم لوگ آپ کی خدمت میں مزید وضاحت کے خواہشمند ہیں؟

چند سال پہلے میں نے یہ فتویٰ مشروط طور پر بیان کیا تھا، جو توضیح المسائل میں موجود ہے کہ: ”سگریٹ یا دیگر تمباکو نوشی، ماہرین اور بااطلاع حضرات کی تشخیصکے مطابق، مہم ضرر ونقصان کا باعث ہو تو حرام ہے ۔“ لیکن کچھ مدّت پہلے، بعض صاحب معلومات ڈاکٹر اور یورنیوسٹی کے بعض موٴمن ومتدیّن اساتذہ کی گواہی اور سگریٹ نوشی سے مرنے والے نیز اس سے پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں کی دل ہلانے والی تعداد جو ہمیں بتائی گئی ہے اس سے ہمارے لئے ثابت اور مسلّم ہوگیا ہے سگریٹ پینے والوں کے بچّے اور ان کے ساتھ رہنے والے لوگ بھی اس کے نقصانات سے محفوظ نہیں! لہٰذا ہم نے مطلقاً طور پر اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دے دیا ہے، ہم خداوندعالم کی بارگاہ میں دعاگوں ہیں کہ پرورگار عالم دنیا کے تمام مسلمانوں خصوصاً عزیدالقدر جوانوں کو جو گھروں کو تباہ وبرباد کرنے والی خطرناک بلاء کی پہلی قربانی ہوتے ہیں، اس کی آفت سے محفوظ رکھے اورعزیز القدر ہوشیاری کے ساتھ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے بارے میں ہوشیار رہیں، انشاء الله ہم اس وقت تک زندہ رہیں اور معاشرے کو اس دھوئیں کی آلودگیوں سے پاک وصاف ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے نظارہ کریں ۔یہاں پر فضلاء وعلماء کے مکرّر تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے، اس مسئلہ کی دلیلوں کی جانب مختصر سا اشارہ کیا جارہا ہے:۱۔ قرآن مجید سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۹۵ میں ارشاد فرماتا ہے: (اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو) ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ جو تعداد بتائی گئی ہے اس کے مطابق ایک سال میں پچاس لاکھ لوگ سگریٹ کے دھوئیں سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں! اور سگریٹ کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی خطرناک بیماریاں، دل، سانس اور کینسر جیسے خطرناک امراض کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، لہٰذا اس بناپر سگریٹ نوشی، خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنے کا مصداق ہے ۔۲۔ قاعدہٴ ”لاضرر ولاضرار فی الاسلام“ یہ قاعدہ متعدد روایتوں سے حاصل ہوا ہے، اگرچہ یہ قاعدہ اور اس سے متعلق کی روایات، دوسروں کو نقصان پہنچانے کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں لیکن ہمیں معلوم ہوا ہے کہ شان نزول، کسی قاعدہ کے عام مفہوم کو محددد نہیں کرتی لہٰذا یہ قاعدہ اپنے نفس کو نقصان پہنچانے کو بھی شامل ہوگا ۔۳۔ فقہ الرضا علیہ السلام کی مشہور ومعروف حدیث میں آیا ہے: ”کُلّ اٴَمرٍ یَکُون فِیہِ الْفِسَاد مِمَّا قَدنَھیٰ عَنہُ فَحَرامٌ ضَارٌّ لِلْجِسْمِ وَفِسَادٌ لِلنَّفْسِ“ کتاب تحف العقول میں بھی اسی کے مشابہ روایت وارد نقل ہوئی ہے ۔ان روایات کے مطابق ہر وہ چیز جو بدن کے لئے اہم نقصان کا باعث ہو، حرام ہے، البتہ مختصر سا نقصان جو ہر چیز میں ہوتا ہے اور وہ چیز قابل پرہیز ہی نہیں ہوتی اس کی بات اس سے علیحدہ ہے، یہاں پر مقصود، عام اور کلی نقصانات ہیں ۔۴۔ بعض لوگوں کو مٹّی کھانے کی عدات ہوتی ہے جسے اسلامی احادیث اور روایات میں ایک قسم کے وسواس کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس سے شدّت سے منع کیا گیا ہے، اس لئے کہ انسان کے لئے نقصاندہ ہے، ایک روایت میں آیا ہے: ”اِنّ الطِّینَ یورثَ السُّقمَ فی الجَسدِ ویُھَیِّجُ الدّاء“(مٹّی گارا کھانا، بیماری اور درد میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے)لہٰذا کتاب مسالک میں مرحوم شہید نے اس کی پہلی دلیل ” لما فیہ الاضرار الظاھر للبدن؛ بدن کے لئے اس کا نقصاندہ ہونا ہے“ شمار کیا ہے، یہ چیزیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ضرر رساں اشیاء کا استعمال مسلّم طور پر حرام ہے یہاں تک کہ اگر واجب روزہ بھی نقصاندہ ہو تو اس کو ترک کرنا چاہیے، اسی طرح واجب غسل اور وضوء ضرر کی حالت میں تیمم میں بدل جاتے ہیں ۔۵۔ ان سب سے ہٹ کر، علم اصول کے مسلّم قاعدہ اور قانون ”کلّما حکم بہ العقل حکم بہ الشرع“ (ہر وہ چیزجس کا حکم، عقلی دیتی ہے شریعت بھی اس کا حکم دیتی ہے) ہمارے زمانے میں سگریٹ اور ہر طرح کی تمباکو نوشی کے حرام ہونے کا مسئلہ میں کہ جس کے نقصانات تمام دانشمند حضرات پر واضح ہوچکے ہیں، کسی شک وتردید کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے، تمام مجتہدین کا نشہ آور چیزو کے استعمال کے حرام ہونے کا فتویٰ بھی انھیں دلیلوں سے حاصل ہوتا ہے ۔(۱)ملک ایران میں سگریٹ پینے والے تقریباً ایک کروڑ آدمی روزانہ تین ارب تومان سے زیادہ سگریٹ میں خرچ کرتے ہیں،( یعنی ہر سال دس کھرب تومان سے زیادہ!)اگر درمیانی لحاظ سے حساب کیا جائے تو حکومتیں سگریٹ کے خرچ کے دو گنی رقم ”سگریٹ نوشی سے پیدا ہونی والی بیماریوں پر“ خرچ کرتی ہیں یعنی ایران میں روزانہ تقریباً چھ ارب تومان (اور سال میں بیس کھرب سے زیادہ)ایران میںایک سال میں چوّن (۵۴) ارب سگریٹ خرچ ہوتی ہیں جن میں سے بارہ ارب سگریٹ ایران میں بنائی جاتی ہیں اور باقی زیادہ تر اسمگلنگ کے ذریعہ وارد ہوتی اور خریدو فروخت کی جاتی ہیں (یعنی ۷۵ فیصد سے زیادہ رقم بیرون ملک چلی جاتی ہے)ملک کے جوان اور نوجوان (دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچّے) سگریٹ نوشی کی طرف ترغیب دلانے کے لئے اصل ٹارگیٹ ہوتے ہیں ۔نوجوانوں میں سگریٹ نوشی، نشہ کی عادت اور معاشرے کی تمام مشکلات کا دروازہ ہے ۔سگریٹ نوشی نہ کرنے والے اشخاص خصوصاً سگریت پینے والوں کے بیوی بچّے بھی، اسی قدر سگریٹ کے دھوئیں کے خطرے میں ہیں اور یہ بے گناہ لوگ زبردستی اور مجبوراً اپنی سلامتی سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔امریکن کمپنیاں سالانہ ساٹھ کھرب سگریٹ بناتی ہیں جن میں تقریباً تین فیصد خود امریکہ میں استعمال ہوتی ہیں اور باقی ستّانوے فیصد تمام ممالک خصوصاً غریب اور ترقی کی راہ پر گامزن ممالک کے لوگوں کودی جاتی ہیں اور اس طریقہ سے اس کی کمپنیوں کو تین کھرب ڈالر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے جو ایران کی بیس سال کی تیل آمدنی کے برابر ہے!۱۔ تمباکو نوشی سے متعلق صاحبان اطلاع حضرات کے نظریاتچونکہ مجتہد کا کام حکم کو معین کرنا ہے جبکہ موضوع کی تشخیص کا کام ماہر فن اور صاحبان اطلاع کے ذمّہ ہوتا ہے، لہٰذا ہم یہ بات تمباکو نوشی سے مقابلہ کرنے والی انجمن جو تجربہ کار ڈاکٹروں، یونیورستی کے اساتذہ اور دیگر ماہر فن پر مشتمل ہے، کے سپرد کردیتے ہیں:سگریٹ نوشی، پچاس قسم سے زیادہ امراض اور بیس قسم کے کینسر کا اصلی سبب یا اس میں کسی حد تک موٴثر ہے ۔سالانہ پچاس لاکھ آدمی سگریٹ نوشی کی وجہ سے جان دیتے ہیں، (یعنی پہلی عالمی جنگ میں قتل ہونے والوں کی تعداد سگریتسے مرنے والوں کی تعداد سے دوگنی ہے اس لئے کہ پہلی عالمی جنگ میں چار سال کے اندر ایک کروڑ لوگ مارے گئے ہیں، جبکہ سگریٹ نوشی سے پوری دنیا میں چار سال کے اندر دو کروڑ آدمی مرتے ہیں!)سن ۲۰۲۰ عیسوی میں سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سالانہ ایک کروڑ آدمی مریں گے، اس فرق کے ساتھ کہ ان میں سے ستّر لاکھ آدمی ترقی کی راہ پر گامزن ممالک میں اور تیس لاک لوگ ترقی یافتہ ممالک میں مریں گے

نشہ آور چیزوں کے استعمال کرنے والوں کے بارے میں احکام

یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ نشہ آور چیزوں کا استعمال، عام ہوتا جارہا ہے، نیز اس کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اس سے مربوط احکام ،واضح طور پر مشخص ہوں اور عام لوگوں کے اختیار میں دئے جائیں، آپ سے التماس ہے کہ درج ذیل چیزوں کے بارے میں اپنا مبارک نظریہ بیان فرمائیں؟۱۔ مختلف نشہ آور چیزیں جیسے بھنگ، ہیروئن، مارفین، حشیش، چرس، ماری جوان، L.S.Dاور اسی طرح کی چیزیں جن کا اس طرح اثر ہوتا ہے، عادی اور غیرعادی لوگوں کے لئے ان کا استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟۲۔ نشہ آور چیزوں کی خرید وفرخت کا کیا حکم ہے؟ نیز خرید وفروخت کی صورت میں کیا انسان اس چیز یا اس سے حاصل ہونے والی رقم کا مالک ہوجائے گا؟۳۔ جن نشستوں میں نشہ آور چیزیں استعمال ہوتی ہیں، ان میں شریک ہونے کا کیا حکم؟ اور اگر نشہ کا عادی ہونے کا امکان ہو تب آپ کیا فرماتے ہیں؟۴۔ نشہ کے عادی لوگوں سے جوانوں کا تعلق خصوصاً اس صورت میں کہ جب ان کے لئے نشہ کا عادی ہونے کا زمینہ فراہم ہو،کیا حکم ہے؟۵۔ نشہ کے عادی لوگوں سے شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا شادی کے سلسلے میں مرد کے لئے نشہ کے عادی نہ ہونے کی شرط کے بارے میں گھر انوں کی شدّت پسندی کے لئے کوئی شرعی جواز ہوسکتا ہے؟۶۔ کیا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پیش نظر، لوگوں پر واجب ہے کہ نشہ کے عادی لوگوں کو نشہ کی عادت چھوڑنے پر مجبور کریں؟۷۔ کیا ڈاکٹر کی اجازت اور دوا کے بہانے سے یا اپنی ذاتی تشخیص سے، نشہ آور چیزوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے؟۸۔ تفریح اور خوش گذرانی کے طور پر نشہ آور چیزوں خصوصاً افیم کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ خصوصاًآج کے زمانے میں نشہ آور چیزوں کا تفریح اور خوش گذرانی کی غرض سے استعمال کرنے سے ان کے بیچنے والوں کو بہت زیادہ مدد ملتی ہے اور وہ انھیں نشہ آور چیزوں کو پھیلانے میں مددگار ہوتے ہیں ۔۹۔ یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اکثر لوگوں کی نشہ کرنے کی شروعات سگریٹ سے ہوتی ہے اور نشہ کی عادت کے لئے سگریٹ کا پیش خیمہ ہونا ناقابل انکار بات ہے، لہٰذا سگریٹ پینے کا حکم خصوصاً نوجوان اور جوانوں کے لئے کیا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ افیم بھنگ، چرس اور ہر قسم کی نشہ آور چیز کا استعمال، اس کی خرید وفروخت اور ان نشستوں میں شریک ہونا، جس میں نشہ آور چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے، گناہ کبیرہ ہے اور اسلامی معاشرے کے ہر شخص اور حکومت پر لازم ہے کہ ہر قسم کا ذریعہ استعمال کرکے اس کام کو روکیں اور اس کی کاشت، پیداوار، خریدو فروخت، اس جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور اس کا استعمال کرنا بھی واضح طور پر حرام ہے، یہاں تک کہ تفریح اور خوش گذرانی کے لئے بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح دوسرے لوگوں میں اس کو پھیلانا اور اس کا اشتہار دینا بھی حرام ہے، اور ذاتی تشخیص سے اس کا استعمال دوا کے طور پر کرنا بھی جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ سگریٹ پینا، اس لحاظ سے کہ وہ نشہ کی عادت کا پیش خیمہ ہے، بلکہ اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے بھی چونکہ اس کے بہت زیادہ نقصانات ہیں، جائز نہیں ہے، خداوندعالم تمام مسلمانوں خصوصاً جوانوں کو اس گھروں کو تباہ کرنے والی آفت سے محفوظ رکھے ۔

نشہ کے عادی لوگوں کے لئے، چرس کا استعمال

نشہ کے عادی لوگوں کے لئے نشہ آور چیز (مثلاً افیم، بھنگ وغیرہ)کا استعمال یا تفریح کے طور پر بھنگ وغیرہ پینے کے متعلق اپنا مبارک نظریہ بیان فرمائیں، نیز اس قسم کی نشست میں شریک ہونے اور اس قسم کے کام کے لئے مقدمات اور سامان فراہم کرنے کا کیا حکم ہے؟

نشہ آور چیزوں کا استعمال خواہ تفریح کے لئے ہو یا غیر تفریح کے لئے، بہرحال حرام ہے؛ مگر یہ کہ ضرورت کی مقدار میں ہو اور نشہ کے عادی حضرات کو جس قدر ہوسکے اُسے چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی طرح نشہ آور چیز (جیسے بھنگ افیم) کی فراہمی، خرید وفروخت، اس کو اٹھانا اور لے جانا جائز نہیں ہے ۔

نشہ آور چیزوں کو تیار کرنا، تقسیم کرنا اور ان کا استعمال

ایران کے اسلامی معاشرے میں، نشہ آور چیزوں کے متعلق حکم شرعی سے شک وتردید برطرف کرنے کی غرض سے، ہماری یونیورسٹی اور دانشکدے اس موضوع کی چھان بین اور تحقیق کا ارادہ رکھتے ہیں، برائے مہربانی اس سلسلے میں شریعت کا حکم بیان فرمائیں؟

نشہ آور چیزوں کا استعمال خواہ کسی مقدار میں بھی ہو، بے شک حرام ہے، نشہ آور چیزیں خواہ قدیمی طرز کی ہوں یا ہمارے زمانے میں ایجاد شدہ ہوں یا آئندہ زمانے میں ایجاد کی جائیں، نیز اس کی کاشت، پیداوار، فصل کاٹنے، تیار کرنے، تقسیم ،خرید وفروخت، حفاظت اور ان کے استعمال میں کسی قسم کی مدد کرنا حرام ہے، اسلامی معاشروں پر لازم ہے کہ اس جان لیوا اور گھروں کو تباہ وبرباد کرنے والی بلاء کا شدّت سے مقابلہ کریں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے میں کوتاہی نہ کریں ۔

توریہ کا مطلب

توریہ کسے کہتے ہیں؟ برائے مہربانی مثال دے کر وضاحت فرمائیں کیا توریہ، ضرورت کے وقت سے مخصوص ہوتا ہے یا غیر ضروری مواقعہ پر بھی جائز ہے؟

توریہ، یہ ہے کہ آدمی دو پہلو بات کرے، اس بات سے اس کی مراد کوئی اور چیز ہو لیکن مخاطب کچھ اور سمجھے جیسے کوئی کسی کے دروازے پر جاکر سوال کرے کہ: فلاں صاحب گھر پر ہیں؟ اور اندر سے جواب دینے والا شخص اس کے جواب میں کہے، یہاں پر نہیں ہیں اور ”یہاں“ سے اس کی مراد ، دروازے کے پیچھے کی جگہ ہو، لیکن سننے والا شخص خیال کرے کہ فلاں شخص گھر میں نہیں ہے، نیز اس قسم کے توریہ میں، حالت ضرورت کی شرط نہیں ہے؛ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ حالت ضرورت کی مراعات کی جائے ۔

اقسام: جهوٹ بولنا
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت