سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

زنا میں احصان کے مستحق ہونے کے شرائط

کیا زانی ذیل کے موارد میں رجم کا مستحق ہے؟۱۔ احصان سے بچنے کے لئے سفر کیا اور زنا کا مرتکب ہوگیا۔۲۔ ایسے حالات میں زنا کا مرتکب ہوا ہے جبکہ بیوی یا شوہر بیماری کی وجہ سے جماع کی آمادگی نہیں رکھتے تھے، اگرچہ تمام دیگر لذتیں ممکن تھیں۔۳۔ زنا اس وقت واقع ہوا جب شوہر بیوی میں ناراضگی اور گھریلو اختلاف کی وجہ سے مجامعت ممکن نہیں تھی۔۴۔ زنا کا ارتکاب بیوی یا شوہر کے روزے کی حالت میں ہوا۔۵۔ عورت طلاق رجعی کی عدت میں زنا کی مرتکب ہوئی ہے (ملحوظ رہے کہ عورت کو رجوع کرنے کا حق نہیں ہوتا)۶۔ مرد اپنی بیوی کے ایام حیض یا نفاس میں زنا کا مرتکب ہوا ہے۔

جواب: تمام بالا صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی زناء محصنہ ثابت نہیں ہے، مگر روزے کے موارد میں ؛ کیونکہ روزہ کی ممنوعہ مقدار احصان پر ضرر انداز نہیں ہوتی، ہرچند کہ فقہاء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ طلاق رجعی کی عدت میں مرد اور عورت کی طرف سے زنا کرنا، زناء محصنہ شمار ہوتا ہے؛ لیکن ان کی دلیل قانع کنندہ نہیں ہے۔

اقسام: زنا کی حد

آنکھوں کی پلکوں کو ختم کردینے کی دیت

چونکہ فقہاء عظام نے دو آنکھوں اور چار پلکوں کی دیت، کامل دیت ذکر کی ہے اور اوپر اور نیچے کی پلکوں کے درمیان فرق کے قائل ہیں، اس تفصیل کے ساتھ کامل دیت کا ثلث ۱/۳ اوپر والی پلکوں کے لئے اور نیچے کی پلکوں کے لئے کامل دیت کی آدھی ہے، حضور فرمائیں:اوّلاً: اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ آج کے دور میں آنکھ کے اوپریشن میں یا آنکھ تبدیل کرنے کے اپریشن میں کہا جاسکتا ہے کہ ہمیشہ پلکوں کو دوبارہ اُگایا جاسکتا ہے، میں ترمیم کا امکان پایا جاتا ہے، کیا اس صورت میں بھی کامل، دیت ہے، یا اہل خبرہ کی ترمیم یا عدم ترمیم کے بارے میں نظر، مقدار دیت کے معیّن کرنے میں موثّر ہے؟ثانیاً: عضو کی قدر وقیمت کے اعتبار سے اور اوپر اور نیچے کی پلکوں کے علاج کے طریقے میں طبی علم کی پیشرفت کو مدنظر رکھتے ہوئے، کوئی محسوس اختلاف نظر نہیں آتا، کیا دیت کا اختلاف منصوص ہے اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے یا طبّی اور اہل خبرہ کی نظر کی بنا پر تغیر کا امکان پایا جاتاہے؟ثالثاً: اس صورت میں جب کہ اوپر کی پلکوں کی دیت، کامل دیت کی ایک تہائی ہو اور نیچے کی پلکوں کی دیت کامل دیت کی آدھی ہو تو باقی ماندہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس صورت میں جبکہ آج اپریشن کے طریقہ سے کاملا ترمیم (بدل جائیں)ہوجائیں تو ارش دینا ہوگا اوراگر کوئی نقص باقی رہ گیا ہو تو اس کی بہ نسبت محاسبہ ہوگا اورجیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے اوپر کی پلک کی دیت ایک ثلث ۱/۳ اور نیچے کی پلک کی دیت نصف ۱/۲، باقی ماندہ(ایک سدس۱/۶)ملغی ہے(کوئی حکم نہیں ہے)۔

اعضاء بدن کو ہدیہ (ڈونیٹ) کرنے کی وصیت

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں یہ وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے جسمانی اعضائ،ضرورتمند بیماروں کو دیدئے جائیں، کیا اس کے وارث اس کام سے روک تھام کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: وارثوں کے منع کرنے کا اس مسئلہ میں کوئی اثر نہیں ہے اور اگر وہ جسمانی اعضاء بیماروں کی جان بچانے کے لئے ضروری ہوں، تو اس کے جسم کے مذکورہ اعضائے بدن کو حاصل کرنا جائز ہے اسی طرح اگر کسی کے مہم عضو جیسے آنکھ کو بچانے کے لئے ضروری ہو۔

دعا لکھنے کا شرعی حکم

دعا نویسی کے سلسلے میں شارع مقدس کی نظر کیا ہے، کیا اسلام میں دعا نویسی جیسی کوئی چیز موجود ہے؟

اُن دعاؤں کے لکھنے میں جو آئمہ علیہم السلام سے کتب معتبرہ میں موجود ہیں، کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن دعا لکھنے کا دھندا کرنا کہ جو پیسہ کمانے والوں میں رائج ہے، صحیح نہیں ہے ۔

اقسام: دعا

ڈوبتے کو نجات دینے کے لئے اجرت کے احکام

اسلامی جمہوریہ ایران کے دریائی قانون کے بند ۱۷۴، و۱۸۱ کے بارے میں کچھ سوالات پیش خدمت ہیں، برائے مہربانی ان کے جواب عنایت فرمائیں:بند نمبر ۱۷۴ میں ایسے آیا ہے: ”ہر قسم کی امداد اور نجات جو مفید نتیجہ کی حامل ہو، اس پر منصفانہ اجرت دی جائے گی، لیکن اگر امداد یا نجات دینے کا کام مفید نتیجہ نہ رکھتا ہو تو اس پر کسی قسم کی اجرت نہیں دی جائے گی، نیز کسی مرتبہ بھی نجات حاصل کرنے والی چیز کی قیمت سے زیادہ رقم ادا نہیں کی جائے گی“۔اور بند ۱۸۱ میں آیا ہے: ”وہ لوگ جن کی جان بچائی گئی ہے ان کوکسی طرح کی اجرت ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا (یعنی ان کے اوپر کسی طرح کی اُجرت ادا کرنا لازم نہیں ہے) نجات دینے والے حضرات جنھوںنے ایک حادثہ سے مربوط نجات یا امداد کے امور میںلوگوں کو نجات دینے کے لئے خدات انجام دی ہیں، وہ لوگ اس اجرت میں سے مناسب حصّہ وصول کرنے کے حقدار ہیں جو اجرت کشتی، جہاز، سامان اور اس سے مربوط دیگر چیزوں کے نجات دینے والوں کودی جاتی ہے“۔۱۔ یہ دو بند، اسلامی عقود میں کس عقد (معاہدہ) کے تحت قرار پاتے ہیں؟ اور فقہی قواعد میں سے کس قاعدہ کو شامل ہیں؟

پہلے بند میں فقط اس موقع پر اجرة المثل کا مطالبہ کرسکتے ہیں کہ جب مال کے مالک یا کشتی اور جہاز کے مالک کی جانب سے درخواست کی گئی ہو، یا کشتی کے مالکان اور ڈوبتے کو نجات دینے والوں کے درمیان ایک عام معاہدہ ہوا ہو اور اس فرض میں کہ ڈوبتے کو نجات دلانے کی درخواست کی گئی ہے، تب اپنی اجرة المثل وصول کرسکتا ہے، اگرچہ اس کی اجرة المثل نجات پانے والی چیز سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو، اور یہ (بند) عقد اجارہ اور عقد جعالہ کے تحت درج ہوتا ہے، البتہ دوسرے بند کے سلسلے میں، انسانوں کو نجات دینے کے عوض اجرت لینا لازم نہیں ہے اس لئے کہ یہ کام واجب ہے، مگر یہ کہ حکومت نے کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے ملازم رکھا ہو جو ہمیشہ اس کام پر نگران وناظر ہوں، اس صورت میں ان لوگوں کو اپنی تنخواہ لینے کا حق ہے، لیکن کشتی اور سامان کو غرق ہونے سے بچانے کی اجرت میں سے کچھ حصّہ انسانوں کو نجات کے لئے قرار دینے پر شرعی دلیل نہیں ہے بہرحال بطور کلی ان دونوں بند کا فقہی قوانین پر تطبیق دینا متعدد مشکلات کا حامل ہے ۔

وقف کی اہمیت

آج کی دنیا میں ، تعلیم وتربیت کی عظیم ذمّہ داریوں کو پورا کرنے کی راہ میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے مہم اداروںکی موقعیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ان اداروں کو عام لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور وقف کی سنت حسنہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان اداروں کے وقف سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟

جواب: وقف ایک مہم اور اسلامی سنّت ہے، جو پیغمبر اکرم کے زمانے سے جاری رہی ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام کے دور میں توجہات کا مرکز تھی اور اسلامی روایات میں اس کے سلسلے میں، بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے، تاریخ کے طولانی سفر کے دوران، وقف کے ذریعہ بڑے اہم کام انجام دیئے گئے ہیں اور بہت سے تعلیمی ادارے، اسپتال، دینی مدارس اور رفاہ عام کے لئے بہت سے اچھے کام اس (وقف) کے ذریعہ انجام دیئے گئے ہیں، پوری دنیا کے مسلمانوں نے وقف کی برکتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور ابھی بھی فائدہ حاصل کررہے ہیں، امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں پڑھتے ہیں: کسی نے حضرت(ع) سے دریافت کیا کہ مرنے کے بعد انسان تک کیا چیز پہونچ سکتی ہے؟ حضرت(ع) نے ارشاد فرمایا: لوگوں کے درمیان نیک سنّت چھوڑجائے، جو شخص بھی اس سنت پر عمل کرے گا اس کا اجر وثواب اس کو بھی حاصل ہوگا،بغیر اس کے کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کے اجر وثواب میں کمی واقع ہو، دوسرے یہ کہ اپنی یادگار کے لئے، صدقہ (وقف) جاریہ، چھوڑجائے کہ جس کی برکتیں اور اثرات باقی رہیں اور یہ صدقہ جاریہ، دوسرے عالم یعنی آخرت میں، اس کے لئے باعث نجات ہوں گے، ٹھیک ہے کہ بعض ناآگاہ اوربے ایمان لوگوں کے وقف سے غلط استفادہ کرنے کی وجہ سے، دوسرے لوگوں کی نظر میں موقوفات کا چہرہ بدل گیا ہے، لیکن ہمیں اجازت نہیں دیناچاہیے کہ اس اسلامی، عظیم اور بابرکت سنت کو، جس کے ہزاروں فائدے اور نتیجہ، تاریخ میں ظاہر ہوئے ہیں، نااہلوں کے غلط استفادہ کی وجہ سے بھُلادیا جائے بلکہ غلط استفادہ کرنے سے روک تھام کرنا چاہیے اور یہ کام بالکل ممکن ہے، بہت سی مسجدیں، درسگاہیں، تعلیمی ادارے اور خصوصاً ائمہ اطہار علیہم السلام کے مقدس روضوں کی تعمیر اور ان کا آباد رہنا، انہی وقف اور موقوفہ چیزوں کی برکت سے ہے، آج کے دور میں اس اسلامی سنت حسنہ کو اور زیادہ اہمیت دی جائے، خصوصاً تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے لئے اس سے استفادہ کیا جائے، یقینا جو بھی عالم اور دانشمند اس طرح کے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے نکلے گا اور وہ عالم جو بھی خدمات انجام دے گا، اس کا فائدہ دنیا وآخرت دونوں میں وقف کرنے والوں کو پہونچے گا، خداوندعالم اسلام کی سچّی سنتوں کو زندہ کرنے والوں کو کامیاب کرے۔

اقسام: وقف
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت