سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

وثیقہ لے کر قاتل کو بچوں کے بڑا ہونے تک آزاد کردینا

میرا بیٹا اپنی بیوی کے گھرو الوں کی شیطنت آمیز تحریکات کی وجہ سے لڑائی جھگڑا اور اپنی خوش دامن (ساس)کے فوت کا سبب بن کر قصاص اور فاضل دیت پر محکوم ہوا، کبیر وارثین اور صغار (بچے) کے باپ نے (اصالتاً وولایتاً) کامل دیت سے زیادہ رقم وصول کرنے پر رضایت دے دی ؛ ہرچند قانونی اور تحریری رضایت نامہ میں دیت لینے پر کوئی اشارہ نہیںہوا ہے، کیا صغار (بچوں) کا باپ صغار کی طرف سے در گذر کرسکتا ہے یا دیت لینے پر راضی ہوسکتا ہے یا ضروری ہے کہ صغار کے رشد وبلوغ کا منتظر رہے؟ کیا آخری صورت میں وثیقہ لے کر مجرم کی موقت آزادی ، جب تک صغار بڑے ہوں ممکن ہے؟

صغار کا ولی جو ان کے نفع میں ہے انجام دے، اگر قصاص ان کے نفع میں ہو تو ان کے اوپر چھوڑدے تاکہ بڑے ہوکر وہ خود قصاص کریں، اس صورت میں وثیقہ کافی کے ساتھ مجرم کو آزاد کردیں اور اگر دیت ان کے نفع میں ہے تو دیت لے لے اور درگذشت کردینا تو بہت ہی نادر موقعوں کے علاوہ صغار کے نفع میں نہیں ہے۔

حق قصاص کا مرکب ہونا

کیا قصاص، انحلالی اور مرکب حق ہوتا ہے یا غیر انحلال اور بسیط ہوتا ہے؟

مقتول کے ولی سب مل کر ایک ساتھ قصاص کا اقدام کریں یا اس کام کے لئے کسی کو وکیل بنالیں اور اگر ان (اولیاء مقتول) میں سے کوئی تنہا اور دوسروں کی اجازت کے بغیر، قصاص کرے، تو اس نے حرام کام کیا ہے اور اس کو دوسروں کا حق (دیت) ادا کرنا چاہیے ۔

عفو دیت اور قصاص کے متعلق مقتول کے اولیاء کا اختلاف

اگر فرض کرلیا جائے کہ قصاص کا حکم، انحلالی حق ہوتا ہے، اگر مقتول کے تمام اولیاء عاقل وبالغ ہوں اور ان میں سے بعض قصاص کے خواہاں ہوں، بعض دیت لینا چاہتے ہوں اور بعض معاف کرنے کی خواہش رکھتے ہوں تب اس مسئلہ کا حکم کس طرح کا ہے؟

اگر بعض دیت لینا چاہتے ہوں،تب بھی باقی اولیاء کو قصاص کا حق ہے لیکن اس شرط پر کہ وہ دیت میں سے باقی لوگوں کے حصہ کی رقم ادا کریں اور اگر بعض لوگ معاف کردیں تب بھی باقی اولیاء مقتول کو قصاص کا حق ہے لیکن دیت میں سے معاف کرنے والوں کے حصہ کی رقم، قاتل اور اس کے وارثوں کو دیدیں ۔

ایسے شخص کی دیت اور قصاص جس نے اپنی زوجہ کو قتل کردیا ہو

اگر کوئی شخص عمداً اپنی زوجہ کو قتل کردے اور مقتولہ کے وارثوں میں فقط ایک اس کی ماں اور ایک بیٹی ہو اور یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ بیٹی کے ذریعہ باپ کا قصاص کرنا ممکن نہیں ہے لیکن مقتولہ کی ماں نے قصاص کرنے کا تقاضا کیا ہے:الف) چونکہ قصاص کی تقاضا مند (مقتولہ کی ماں) کی طرف سے آدھی دیّت قاتل کو دینا لازم ہے، سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کے حصّہ کی دیت بھی ادا کرے یا نہیں، نیز توجہ رکھتے ہوئے کہ قاتل کا باپ موجود ہے جو اس کا نابالغ بیٹی کا دادا ہوتا، کیا نابالغ بچی کی مراعات کرتے ہوئے، دیت کا تقاضا کرنا یا معاف کردینے کا کام اس کے داد کے ذمّہ ہے؟ب) اگر قصاص کا تقاضا کرنے والی (مقتولہ کی ماں) میں، بچی کے حصّہ کی دیت کی رقم کو ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو یا ادا کرنے سے انکار کرنے کی صورت میں کیا قصاص کا حق ساقط ہوکر دیت کے حکم میں تبدیل ہوجائے گا یا اس کے اجرا کرنے میں تاخیر کی جائے گی، نیز تاخیر کی صورت میں کیا مجرم کو قید سے رہا کردیا جائے گا یا نہیں؟

الف) بچی کے حصّہ کی دیت ادا کرے اور بظاہر اس کام میں داد اس کے ولی ہیں ۔ ب) اگر ولی قصاص میں مختصر سے عرصہ کے بعد، مالی استطاعت کی امید ہو تو اس کے مستطیع ہونے کا انتظار کرنا چاہیے نیز مجرم سے کافی حد تک ضمانت لے کر اُسے رہا کردیا جائے گا، لیکن اگر اس کے مستطیع ہونے کی امید نہیں ہے تب قاتل پر دیت لازم ہوجائے گی ۔

مقتول کے ولی کے ذریعہ مکرہ اور ممسک شخص کو معاف کیا جانا

مجتہدین فرماتے ہیں: قتل پر مجبور کرنے والے کی سزا، ہمیشہ کے لئے قید خانہ ہے اور پکڑنے والے (جیسا کہ کسی نے مقتول کو پکڑ رکھا ہو اور دوسرے نے قتل کیا ہو) کی سزا یہ ہے کہ اس کی آنکھیں پھوڑدی جائیں، لہٰذا اگر ایک آدمی پکڑے دوسرا اسے تھامے رہے اور بھاگنے نہ دے اور تیسرا آدمی قتل کردے، اس صورت میں جیسا کہ مقتول کے ولی ووراث قاتل کو معاف کرسکتے ہیں کیا مجبور کرنے والے اور تھامنے والے آدمی کو بھی معاف کرسکتے ہیں؟ یا یہ بھی زنا کی سزا کی طرح الله تعالیٰ کی معیّن کردہ ایک حد (سزا) ہے جو قابل معافی نہیں ہے؟

چنانچہ مقتول کے ولی ووارث، مجبور کرنے والے اور پکڑنے وتھامنے والے کی خطا سے درگذر کریں، تو ان کے متعلق، ان سے مربوط سزا کا حکم جاری کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، اس کا حکم بھی قصاص کے مثل ہے نیز مجبور کرنے اور پکڑنے والے یعنی دونوں کی سزا قید ہے، آنکھیں پھوڑنے کی سزا فقط دیکھنے والے (نگران) کی ہے اور وہ بھی خاص صورت میں ۔

قسم کے تقاضوں کے بر خلاف اقرار کرنا

چنانچہ کسی شخص کے بارے میں مخصوص طریقہ سے قسم کھانے کی ذریعہ قصاص کا فیصلہ ہوجائے اور (یقینی فیصلہ کے بعد) فیصلہ پر عمل کرنے کے مرحلہ میں، مجرم کا بیٹا اسی مقتول کو عمداً قتل کرنے کا اعتراف کرے تو کیا وظیفہ ہے؟

اس مسئلہ کی چند صورت ہیں:الف) مدعی خود بھی قسم کھانے والوں شامل تھا، اس صورت میں بعد کے اقرار پر عمل نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ مدعی خود اپنی تکذیب کرے ۔ب) مدعی قسم کھانے والوں میں شامل نہیں تھا یعنی اس کے لئے قسم کھانا ضروری نہیں تھا، پھر بھی اگر مدعی یقینی رہا ہو تب بھی اس کے اقرار کے مطابق عمل نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ وہ اپنی تکذیب کرے ۔ج) اس کا دعویٰ گمان پر مبنی ہو، اس صورت میں اختیار ہے کہ خود قسم کے تقاضے پورے کریں اور اس کے مطابق عمل کریں یا اقرار کے مطابق عمل کیا جائے، لیکن عدالتی کارروائی میں، گمان پر مبنی دعوے کو قبول کرنا مشکل ہے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ اپنی تکذیب نہ کرنے کی صورت میں، اقرار کے مطابق عمل نہیں کیا جاسکتا ۔

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت