سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

حدود (سزاؤں) کے سلسلے میں پہلی اصل (پہلا قاعدہ و قانون)

حدود (سزاؤں) کے باب میں، اصل قاعدہ و قانون کیا ہے؟ اور اگر سزا کے ساقط ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تب کیا کرنا چاہیے؟

حدود کے باب میں، کسی بھی سزا کے ثابت ہونے کے بعد، اصل قانون وقاعدہ یہ ہے کہ وہ سزا ساقط نہیں ہوگی بلکہ باقی رہے گی، اور یہاں پر اصل قانون وقاعدہ سے مراد، دلیلوں کے اطلاق ہیں جو کہتے ہیں کہ فلاں سزا دی جانی چاہیے، خواہ وہ شخص انکار کرے یا نہ کرے، فرار ہوجائے یا فرار نہ ہو، البتہ قاعدہ استصحاب کا تقاضا بھی سزا کا باقی رہنا ہی ہے، (اگر ہم قاعدہ استصحاب کو شبہہ حکمیہ میں جاری کرنا ، صحیح سمجھتے ہوں) اس بناپر جب تک کوئی دلیل سزا کے ساقط ہونے پر قائم نہ ہوجائے، اس وقت تک سزا کا حکم باقی رہے گااور اس کو سزا ملنا چاہیے، نتیجہ میں ان تمام موقعوں پر جہاں قاضی کا علم حجّت ہوتا ہے، سزا کا حکم جاری ہوناچاہیے، اس لئے کہ امام کے معاف کرنے، یا اقرار کے بعد انکار کرنے یا اقرار کے بعد فرار کرنے کے ذریعہ سزا کے ختم ہونے کی دلیلیں، مقام گفتگو کو شامل نہیں ہیں، مگر یہ کہ حاکم کے علم کا سرچشمہ اور بنیاد، غیر صریح اقرار یا اقرار کے ملزومات جیسی چیزیں رہی ہوں، کہ اس صورت میں انکار یا اقرار یا حاکم کے معاف کرنے کے بعد، سزا کا اجرا کرنا مشکل ہے اور کم سے کم ”تدراٴ الحدود بالشبہات“ میں شامل ہے ۔

مور کا گوشت

مور کہ جس کے بار ے میں حضرت علی(علیہ السلام) نے ایک طولانی خطبہ ارشادد فرمایا ہے اور اس خطبہ میں مور کو مرغ (پرندہ)سے تشبیہ دی ہے اس کا گوشت کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب:موع خواہ سفید ہو خواہ سیاہ ہو، حرام گوشت جانور ہے اور اس عجائبات کی شرح و وضاحت کرنا ،اس کے حلال ہونے کی دلیل نہیں ہے ، جیسا کہ حضرت نے چمگادڑ کے عجائبات بھی بیان فرمائے ہیں۔

اسلامی تعذیرات کی دفعہ ۵۹ کے تیسرے بند کی فقہی دلیل

اسلامی تعذیرات کی دفعہ ۵۹ کے تیسرے بند کی فقہی دلیل کے سلسلے میں نیچے دیئے گئے قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی نظر مبارک بیان فرمائیں : ”وہ حادثات جو کھیل کود کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں بشرطیکہ ان حوادث کا سبب کھیل کے قوانین کا نہ توڑنا ہو اور نہ ہی قوانین شریعت کے مخالف ہوں تو جرم شمار نہیں ہوتے“ایسے حادثات کو جرم تسلیم نہیں کیا گیا ہے (یعنی ان حالات کے تحت ایک فعل، جرمی حالت ہونے سے خارج ہوجاتا ہے) مثلاً فٹبال کے کھیل میں ایک کھلاڑی گیند میں لات مارتا ہے اور گیند دوسرے کھلاڑی کے منہ پر پڑتی ہے جو اس کے زخمی ہونے یا ہڈی ٹوٹنے کا سبب بن جاتی ہے؛ لیکن اس میں کھیل کے قوانین وضوابط کی رعایت کی گئی ہے، نتیجةً اس کا یہ فعل مذکورہ قانون کے مطابق جرم شمار نہیں ہوتا ہے ؟

اس مسئلہ کی دلیل یہ ہے کہ جب کھلاڑی کھیل کے میدان میں اترتے ہیں تو عملاً ایک دوسرے سے ان حادثات کی نسبت جو کھیل کی طبیعت میں پوشیدہ ہیں یہان تک کہ اگر قوانین کے مطابق بھی عمل کریں پھر بھی حوادث پیش آہی جاتے ہیں، ضمنی معافی حاصل کرلےتے ہیں، اس معافی کی طرح جس کو طبیب لفظاً یا عملًا مریض سے لیتا ہے اور یہ کام اس کی معافی کا سب ہوتا ہے۔

دسته‌ها: ضمانت کے اسباب

فحش فلموں اور معاشرے کو خراب کرنے والے آلات کو نابود کرنا

ہمارے زمانے کے مہم مسائل میں سے ایک مسئلہ اخلاقی فساد کا مسئلہ ہے کہ جس نے ہمارے جوانوں کو بگاڑ دیا ہے اور ان کو ہلاک کرنے کے درپے ہے، اس کے بہت سے پہلو ہیں ان میں سے سب سے واضح پہلو ویڈیو فلمیں اور کیسٹیںہیں کہ جن کا معاشرے کی تہذیب کو خراب کرنے اور جوانوں کو منحرف کرنے میں بہت بڑا حصّہ ہے، اور افسوس کہ انتظامیہ اور عدلیہ اس سلسلے میںبہت سست عمل کرتے ہیں، کیا ایسی چیزوں کو اس دلیل سے کہ یہ اسلامی تہذیب کو ختم کررہی ہیں، نابود کرسکتے ہیں؟ کیا ان جیسی چیزوں کو جیسے ڈش انٹینا وغیرہ کہ جس کا کردار فحش ویڈیو فلموں جیسا یا اس سے شدید ہے، نابود کیا جاسکتا ہے؟

یقیناً فحشا اور فساد کے آلات کو نابود کیا جاسکتا ہے اور یہ کام ضمان کا سبب بھی نہیں ہےن لیکن لوگوں کو یہ اجازت نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے یہ کام کریں؛ کیونکہ اس صورت میں ہرج ومرج لازم آئے گا، بلکہ منصوبہ بندی اور قوانین کے تحت، اور حاکم شرع اور مربوطہ حکّام کی ریز نگرانی انجام دیا جائے ۔

دسته‌ها: ضمانت کے اسباب

حکومتی ادارات وغیرہ سے چوری

تقریباً تین سال پہلے (جہالت اور برے ساتھیوں کی صحبت کے نتیجہ میں) میں نے میونسپلٹی کی ملکیت چند کیبل (بجلی کے تار) چرا کر فروخت کردیئے اب اگر میں ان کی قیمت ادا کرنا چاہوں تو:الف) کس شخص یا کس محکمہ کو ادا کروں جو کہ لازم ہو؟ب) اس مورد میں کہ جب میرے سامنے، میونسپلٹی یا کسی شخص سے (ان چیزوں کو اپنے لئے) حلال کرانے یا کسی خاص آدمی کو راضی کرنا ضروری ہے؟ج) اس زمانے میں، ایک کیلو کیبل (تار) کی قیمت چالیس تومان تھی جبکہ اس وقت اس کی قیمت ۱۲۰ تومان ہے، اس صورت میں اب میں کونسی قیمت ادا کروں؟د) ہم تین آدمی تھے (البتہ رقم ہم دولوگوں کے درمیان تقسیم ہوئی) اب میں تمام تاروں کی قیمت ادا کروں یا یہ کہ ان سب کا وزن جوڑکر اس کے آدھے وزن کی قیمت ادا کروں؟ھ) ان کیبلوں (تاروں) کا صحیح وزن مجھے یاد نہیں رہا ہے، اس صورت میں ان کی قیمت کیسے ادا کروں؟

تم اس رقم کو میونسپلٹی کی آمدنی سے متعلق بینک کے کھاتہ میں ڈال سکتے ہو، اور اس کی موجودہ قیمت دینا ضروری ہے اور اگر دوسرے اپنا حصہ ادا نہ کریں تو تمام رقم کے ضامن اور ذمہ دار تم ہو، ہاں یہ کام انجام دینے کے بعد پھر کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، تمھیں بارگاہ الٰہی میں توبہ کرنی چاہیے اور قیمت کی مقدار میں شک ہونے کی صورت میں، اسی مقدار کے لحاظ سے، احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔

خود مجرم کا حد جاری کرنا

کیا زناءِ محصنہ اور لواط کرنے والا خود کو قتل کرسکتا ہے؟

حاکم شرع کے حکم کے ذریعہ ہی سزا دی جانی چاہیے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ گناہ گار، حاکم شرع کے پاس جاکر اپنے گناہ کا اعتراف کرے بلکہ فوراً توبہ کرسکتا ہے اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنے ماضی کی کسر پوری کرسکتا ہے اور اس طرح سے خود کو سزا سے بچا سکتا ہے ۔

قاضی کے علم کی مستند باتیں

اگر بعض چیزیں جیسے ڈاکٹری مسئلہ میں طبیب کا نظریہ، آڈیو کیسٹ، ویڈیو کیسٹ، تصوریں، تحریریں، سرکاری کاغذات، غیر سرکاری کاغذات وغیرہ، کسی قاضی کے لئے علم آور ہوں تو کیا وہ قاضی انہیں اپنے حکم اور فیصلہ کی دلیل قرار دے سکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا قاضی کے حکم اور فیصلہ کی دلیلیں فقط بینّہ (گواہی)، قسم اور اقرار، جن کا شریعت میں تذکر ہوا ہے، جیسے امور ہی میں منحصر ہیں یا یہ کہ ہر وہ چیز جو قاضی کے لئے علم کا باعث ہو، قاضی کے فیصلہ کی دلیل بن سکتی ہے؟

عقلاء کی نظر میں معتبر تحریریں اور کاغذات، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، شریعت کی رو سے حجت ہیں، لیکن آڈیو کیسٹ فیلم وغیرہ جیسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور قاضی کا علم فقط اس صورت میں حجت اور معتبر ہے کہ جب اسے محسوسات سے جیسے مشاہدہ کرنے یا اسی سے قریب چیز کے ذریعہ، علم حاصل ہوا ہو جیسے غلام اور آقا کے جھگڑے اور (ایک بچہ کے بارے میں) دوخواتین کے اختلاف کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کےفیصلہ ، روایات میں بیان ہوئے ہیں، اس سلسلہ میں مزید وضاحت اور تفصیلی گفتگو ہم نے ”علم قاضی“ کے ذیل میں کی ہے ۔

دسته‌ها: قضاوت

مسجد میں نعرے لگانا۔

مسجدوں میں مذہبی جیسے نعرہٴ حیدری لگانا جیسا کہ پاکستان کی بعض مسجدوں میں رائج ہے ، کیا یہ عمل ، مکروہ ہے ؟

جواب: ایسے نعرے لگانے میں کوئی حرج نہیں ، جن کا مضمون صحیح اور مذہبی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ نماز یوں کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کریں نیزوہ نعر ے ایسی آوازوں پرمشتمل نہ ہوں جن سے مسجدوں کی توہین ہوتی ہے ۔

دسته‌ها: مسجد کے احکام

زوجہ کا جسمانی اور روحانی لحاظ سے، صحیح نہ ہونا

اگر تدلیس ( دھوکا ) کرنے والی بذات خود بیوی ہی ہو ، اور شوہر عیب کے بارے میں مطلع ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کردے ، اس مورد میں کہ جب بیماری، نفسیاتی ، سر کا چکرانا ، الٹی آنا ، اور دورا پڑنا ، غصہ کی حالت میں رہنا جو عام طور پر نفسیاتی بیماری کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور قابل علاج بھی نہیں ہوتا نیز حاذق طبیب نے اور عینی گواہوں نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہو کیا یہ فسخ صحیح ہے ؟

جب زوجہ اور اس کے گھر والے اس طرح ظاہر کریں کہ لڑکی صحیح و سالم ہے تو گویا یہ اس شرط کے دائرہ میں آجاتی ہے جو ہمارے ماحول میں رائج ہے کہ عورت کو صحیح و سالم سمجھا جاتا ہے ، اور پھر بعد از نکاح اس کے خلاف ظاہر ہوجائے ، تو شوہر نکاح کو فسخ کرسکتا ہے اور اگر دخول محقق نہ ہوا ہو تو عورت کو مہر لینے کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر بیماری کی اطلاع سے پہلے دخول ہوگیا ہو تو شوہر پر پورا مہر اد اکرنا لازم ہے ہاں اس کو تدلیس ( دھوکا ) کرنے والے سے وصول کرسکتاہے اور اگر تدلیس کرنے والی خود بیوی ہی ہو تو مہر ساقط ہے ۔