قتل عمد میں حقِ قصاص کا مالک
قتل عمد میں حق ِ قصاص کا مالک کون ہے؟ مجنی علیہ (مقتول) یا اولیاء دم (وارثین)
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
1. مدعی قسم کو مدعیٰ علیہ (ملزم) کی طرف پلٹا سکتا ہے ، اس صورت میں ۵۰/ قسمیں ملزم کے ذمہ ہیں۔2.قاعدہ ”البینة علی المدعی و الیمین علیٰ من انکر“ شاہد لانا مدعی کے اوپر اور قسم کھانا منکر (ملزم) کے ذمہ ہے یہاں پر یہ قاعدہ جاری ہوگا ۔3.اس فرض میں دیت کسی پر بھی نہیں ہے۔
قسامہ عورت نہیں ہوسکتی، اسی وجہ سے اگر بہ تعداد کافی مرد نہ ہوں تو قسم کی تکرار کریں۔
ایک جلسہ میں قسامہ کا جاری کرنا میں مشکل نہیں ہے اور اس کا ثبت کرنا ایک سادہ کام ہے، لیکن اگر بالفرض میسر نہ ہو تو دو یا چند نزدیکی جلسوں میں انجام دینا کوئی مانع نہیں رکھتا، بشرطیکہ مدعی بہ حسب معمول ان کے جمع کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔
قسامہ ایک قاضی کے حضور میں کامل طور سے جاری ہونا چاہیے۔
اس مسئلہ میں انفراد شرط نہیں ہے۔
قسامہ کا تقاضا بچہ کے ولی کی طرف سے ہوگا اور قسامہ کے ہی احکام جاری ہونگے۔
طفل اور مجنون کے مورد میں قسامہ جاری ہے اور اگر حیوان کے مورد میں تسبےب کا پہلو رکھتا ہو تو وہاں بھی قسامہ جاری ہوسکتا ہے۔
اس کا شرعی جواز دوطریقوں سے ممکن ہے؛ پہلا طریقہ یہ ہے کہ خلاف ورزی، فسخ کرنے کے حق کا باعث ہوتی ہے، لیکن فسخ کرنے کا اختیار مشروط ہے کہ فلاں مبلغ رقم، گھاٹے کے عنوان سے ادا کیا جائے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاملہ، فسخ نہ ہو یا دیر سے انجام پائے اور پہلے سے نقصان کی پیشنگوئی کا عقد معاملہ میں شرط کے عنوان سے ذکر کیا جائے ان دونوں صورتوں میں اس رقم کا وصول کرنا جائز ہے ۔ب: یہ کام معاملہ کے مردد ہونے کا باعث نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاملہ کوفسخ کرے تو اس حق کے عوض فلاں رقم ادا کرے ۔ج: مذکورہ دونوں فرضوں میں، تاخیر کے سبب اور نقصان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔د: اگر شرط، تاخیر سے مربوط ہو تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ه: اگر شرط مطلق تھی اور عام لوگوں کو فہم کے مطابق تھی تب تواس صورت کو بھی شامل ہوگی اور اسی کے اوپر عمل کیا جائے گا ۔
یہ معاملہ اور اس شرط میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ حق سے فائدہ اٹھانا اور اسے استعمال کرنا، مقامی رواج اور عادت کے مطابق ہے، ہاں البتہ توجہ رہے کہ شرط کا باطل ہونا، عقد معاملہ کے باطل ہونے کا باعث نہیں ہوتا ۔
اس طرح کا خیار شرط صحیح نہیں ہے، لیکن اگر بیعانہ کرتے وقت وہ شخص مغبون تھا تو خیار غبن کو استعمال کرسکتا ہے ۔
اگر نقشہ، سازوسامان اور اس کے تمام صفات اور امتیازات معین ہوجائیں، تب کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان چیزوں کے معین کئے بغیر جائز نہیں ہے ۔بہترین طریقہ وہی ہے جو اوپربیان ہوچکا ہے ۔
فائدے کی کوئی مقدار معیّن نہیں ہے بلکہ یہ بات دونوں فریق (دگاندار اور خریدار) کی مرضی سے تعلق رکھتی ہے، مگر وہ جنس جس کی قیمت حکومت اسلامی کی جانب سے معیّن کی گئی ہو لیکن انصاف سے کام لینا بہرحال بہت اچھی بات ہے ۔