قتل عمد میں حقِ قصاص کا مالک
قتل عمد میں حق ِ قصاص کا مالک کون ہے؟ مجنی علیہ (مقتول) یا اولیاء دم (وارثین)
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
مجنی علیہ حقِ قصاص کا مالک ہے اوریہ حق اس سے ورثہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
جواب: ہر سال کی ایک تہائی قیمت کو محاسبہ کے روز کی قیمت سے ادا کرے گا، مگر یہ کہ ابتداء میں ہی قیمت کے اوپر مصالحہ ہوگیا ہو ۔
جواب: ان کا یہ شہادت دینا کہ وہ قاتل نہیں ہے کوئی اثر نہیں رکھتا؛ ہرچند شہود یعنی گواہوں کو قتل کے کیس میں متہم نہیں ہونا چاہیے ، جبکہ اس مقام پر مفروضہ مسئلہ میں شہود متہم بھی ہیں، البتہ مقتول کی شہادت بھی کوئی اثر نہیں رکھتی، مگر یہ کہ قاضی کو مقتول اورمقتول کے عزیزو اقارب کی گواہی کہ جو موقعہ واردات پر حاضر تھے اور اسی طرح کے دوسرے قرائن کے ذریعہ علم ہوجا ئے کہ شخصِ مذکور ہی قاتل ہے۔
جواب: اگر اسکا نتیجہ عضو کے نسبةًمعطَّل ہونے کا سبب ہو تو ارش کی نسبت سے حساب ہونا چاہیے۔
جواب: اگر جنایت کا اثر اسی عضو پر تھا تو نہ دیت ہے اور نہ ارش لیکن اگر عضو میں یا ہڈی میں تبدیلی ہر چند وہ ایک مدت کے لئے ہو تو اس کے لئے ارش ہے ۔
جواب: دائی فقط تعذیر کی مستحق ہے، ممکن ہے مالیتعذیر کا انتخاب کیا جائے۔
جواب: اقرار کے بعد انکار قابل قبول نہیں ہے، مگر یہ کہ ثابت ہوجائے واقعاً غلطی ہوگئی تھی؛ مثلاً کسی اجنبی کو اپنے بیٹے کی جگہ تصور کرلیا تھا۔
جواب: جب بھی حد سرقت کے شرائط مکمل ہوں تو قاضی کو وسوسہ نہ کرنا چاہئے اور حدود الٰہی جاری کرنا چاہئے البتہ ضروری نہیں ہے کہ حد ملاٴعام میں جاری ہو تاکہ مخالفین اس کے اوپر منفی پروپیکنڈہ نہ کرےں۔
اصل قاعدہ یہ ہے کہ معاملہ کے تمام ہونے کے بعد،فروختہ شدہ چیز خریدار کی ملکیت میں آجاتی ہے اور اگر بیچنے والے شخص نے اس چیز کی حفاظت کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو ایک امانت دار کی حیثیت سے وہ اس چیز کے تلف ہونے کا ضامن نہیں ہے لہٰذا مالک (خریدار) کا مال تلف ہوگا، لیکن مقدس شارع نے یہاں پر اصل قاعدہ کو توڑدیا اور بیچنے والے کو ضامن شمار کیا ہے ۔
اس کے معنا یہ ہیں کہ اسان جان بوچھ کر خود کو ضرر اور نقصان ہچانے کے لیے کوئی کام انجام دے۔ مثلا وہ جانتا ہے کہ اس چیز کی قیمت ہزار روپیے نہیں ہے مگر کسی لحاظ میں اسے ہزار روپیے میں خرید لے۔
جواب: قصاص اور تعذےرات کو بھی شامل ہے۔جواب: ثبوت حد یا قصاص کی دلیل حد اقل حجیّت نہ رکھتی ہوبلکہ حد ےا قصاص کو جاری کرنے کی دلیل ہر چند ظنی ہولیکن محکم دلیل شمار ہونا چاہئے؛ اس طرح کے عرفاً حد یا قصاص کی نسبت شبہ پیدا نہ کرتی ہو۔جواب: معیار تشخیص قاضی ہے۔جواب: قاعدہ درء ان تمام موارد کو شامل ہوتا ہے۔جواب: کوئی فرق نہیں ہے۔
جواب : جب بھی قاضی کا علم حسّیات (یعنی حسی مقدمات )کے ذریعہ یا حسّیات سے قریب چیزوں کے ذریعہ حاصل ہو جائے تو حجت ہے
بد آموز اور ضرر پہنچانے والی فلمیں جیسے سیکسی اور ڈراؤنی فلمیں وغیرہ حرام ہیں، لیکن درس دینے والی فلمیں یا کم از کم بغیر مفسدہ کے سرگرم کرنے والی فلمیں نہ یہ کہ ان کے دیکھنے میںاشکال ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ مفید اور موٴثر اور اسلامی مقاصد کی ترقی کا سبب بھی ہوتی ہیں اور کسی مرد کا بغیر محرمیت کے کسی عورت کے شوہر کے کردار کو ادا کرنا اس صورت میں کہ جب اس میں شریعت کے خلاف کوئی چیز نہ ہو تو اس میں ذاتاً کوئی اشکال نہیں ہے، اور مخالف جنس کی آواز کی تقلید کرنے کا بھی یہی حکم ہے ۔
اگر فیلم سازی کے فن کو سیکھنا مقدس مقاصد کی غرض سے ہو، اور اُن فیلموں کا دیکھنا فحشاء وفساد کا منشاء بھی قرار نہ پائے تو اشکال نہیں ہے ۔
اگر اس کام کو نامحرم انجام نہ دیں تو کوئی مانع نہیں ہے ۔